• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل میں میانی صاحب قبرستان والی سڑک سے گزر رہی تھی تو میری نظر ایک بہت بڑے مفکر، دانشور، شاعر اور صوفی واصف علی واصف کے دربار کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھے جملے ’’پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں‘‘ پر پڑی۔ میں نے محسوس کیا یہ جملہ جدوجہد کی پوری کہانی ہے۔ اس میں ایک خاص پیغام، جستجو، امید اور روشنی کی کرن وہاں سے گزرنے والوں کو اپنے اندر ایک نئی توانائی محسوس کرنے اور مایوسیوں کی گرد جھاڑ کر آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ واصف علی واصف کو جو زمانہ ملا وہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا کا دور تھا۔ لوگوں تک اپنی بات پہنچانی مشکل نہ تھی۔ اس وقت دنیا کے حالات و واقعات بھی بہت تبدیل ہو چکے تھے اور یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کی روح جس دور میں جسم میں بھیجی جاتی ہے اس کو اس دور کی دانش، حکمت دے کر بھیجا جاتا ہے تا کہ وہ اس دور کے معاملات، مسائل، چیلنجز کو سمجھ کر ان کا سامنا کر سکے اور ان کا حل نکال سکے لیکن ہر انسان ادراک کی ایک خاص حد تک محدود ہوتا ہے اس لئے صوفی، ولی، درویش اور دانشور رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ واصف علی واصف نے اپنے علم اور دور کے حوالے سے مختلف طریقہ اپنایا۔

انہوں نے 15 جنوری 1929کو اس دھرتی پر جنم لیا اور 18 جنوری 1993کو دوسرے جہاں کے سفر کا آغاز کیا۔ ان کی پیدائش اور وفات میں 9 کا ہندسہ دو دو دفعہ استعمال ہوتا ہے۔ جو ہندسوں کا علم رکھنے والے ہیں وہ بھی اس حوالے سے بہتر جانتے ہیں اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ خوشاب میں پیدا ہونے والے واصف علی واصف کو جھنگ کی علمی، ادبی، ثقافتی فضا نے خوب نکھارا۔ ان کے اندر پڑھنے سے زیادہ جاننے کی لگن اور جستجو تھی اسی کے پروں پر بیٹھ کر وہ تمام عمر سیکھنے اور سکھانے پر معمور رہے۔ جھنگ میں انہیں اپنے مہربان نانا کی شفقت اور رہنمائی میسر تھی جو قائداعظم کی رہنمائی میں مسلم لیگ کے لئے کام کر چکے تھے۔ یوں شروع سے ہی انہیں ایک ایسی تربیت گاہ میسر آئی جس نے پاکستان کے حوالے سے انہیں سوچنے اور اس کے مسائل کا جائزہ لینے کی طرف راغب کیا۔ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں ایم اے انگریزی کرنے پہنچے تو سوچ اور محفلوں کا دائرہ کار کچھ اور وسیع ہوا مگر اسی دور سے انہیں اپنے اندر ایک خاص قسم کی تشنگی، بے اطمینانی کا احساس بڑھتا ہوا محسوس ہوا تو وہ مختلف فقیروں، درویشوں، ولیوں اور صوفیوں کے پاس جانے لگے۔ ایم اے انگریزی کر لیا، ساری تعلیم فرسٹ ڈویژن میں حاصل کر کے مقابلے کا امتحان بھی دیا، پاس بھی کر لیا لیکن طبیعت کو اس روٹین کی طرف جانا منظور نہیں تھا اس لئے لاہور کے ایک پنجابی کالج میں پڑھانے لگے پھر بعد میں اپنا انگریزی کالج بھی بنایا۔ واصف علی واصف نے اُردو اور پنجابی میں شاعری کی۔ ان کی پنجابی شاعری اسی صوفیانہ سلسلے کا تسلسل ہے جس کا آغاز ہم بابا فریدؒ سے آغاز کرتے ہیں۔ شاعری کیوں کہ لوگوں کے دلوں کے قریب ہوتی ہے اس لئے زیادہ تر صوفی شاعر اس کو ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں لیکن واصف علی واصف نے شاعری کے ساتھ ساتھ گفتگو، سوال و جواب، خطبات اور مکالمے کے ذریعے علمی، ادبی اور صوفیانہ بحثوں کی ایک روایت قائم کی۔ واصف علی واصف کہتے ہیں کہ ہمیں ان معاملات پر پریشان نہیں ہونا چاہئے جو ہماری رسائی سے باہر ہیں۔ جو چیزیں ہمارے دائرہ کار میں ہیں انہیں ٹھیک کر لیں تو ہم ایک اچھے معاشرہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

آج کے حالات دیکھتی ہوں تو سوشل میڈیا سمیت ہر طرف ایک شدید قسم کی مایوسی کا چھڑکائو جاری ہے۔ لوگوں کے حوصلے توڑ کر، ان کی امیدوں کے چراغ بجھا کر، انہیں زندگی سے دور کر کے ہم کون سی خدمتِ خلق کر رہے ہیں؟ بجائے اس کے کہ انہیں مایوس کریں ہم انہیں حالات کے مقابلے کے لئے بھی تیار کر سکتے ہیں۔ کورونا نے صرف پاکستان کی معیشت کو متاثر نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے طاقتور ملکوں کی معیشت اس کے سامنے منہ کے بل گر پڑی۔ اس منجدھار سے ہم نے مل کر خود کو اور ملک کو نکالنا ہے۔ یہ ملک صرف حکومت کا نہیں ہے نہ ہی اپوزیشن کا ہے، یہ بائیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے، یہ ہم سب کا گھر ہے، ہم نے اس وقت تماشہ نہیں دیکھنا اپنے اپنے میدان میں کوشش کرنی ہے، اپنی صلاحیتوں کے مطابق جو ہم بہترین کر سکتے ہیں وہ ہمیں کرنا چاہئے۔

مجھے واصف علی واصف کی اس بات پر پکا یقین ہے کہ پاکستان ایک نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔ اس نور کی کرنیں اس لئے ہم تک نہیں پہنچ رہیں کیوں کہ نور کا زمین، ذہنوں، روحوں اور دلوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور پاکستان بننے کے بعد جس طرح آپا دھاپی، حکومتوں اور اپوزیشن کے درمیان تنازعات، اداروں کی آپسی چپقلش جیسے مسائل پیدا ہوئے جس میں ہم نے بنیادی مقصد کو فراموش کر دیا تو پھر اس نور نے بھی اپنی چکاچوند سے ہمیں اس طرح منور نہیں کیا جس طرح ہونا چاہئے تھا۔ اس لئے اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ اس نور سے اپنی زندگیوں کو اُجالیں اور دنیا میں ایک باوقار قوم بنیں جو معاشی طور پر آزاد ہو تو پھر ہمیں ان تمام تعصبات اور تقسیموں سے ماورا ہو کر سوچنا ہو گا۔ یہ نہ سوچیں کہ حکومت کس کی ہے، یہ سوچیں کہ یہ ہمارا ملک ہے اور اس کو ہم نے سنوارنا ہے۔ اس کی پہچان ہماری پہچان ہے اور اس کو باوقار بنانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔

تازہ ترین