• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں 21سالہ نوجوان اسامہ ندیم کی ہلاکت اور 19جنوری 2019کو ساہیوال میں خلیل اور اُس کی بیوی نبیلہ کی اُن کے کمسن بچوں کے سامنے پنجاب پولیس کے ہاتھوں ہلاکت نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں ہمارا سر شرم سے جھکا دیا۔ لوگوں کے ذہنوں سے سانحہ ماڈل ٹائون نکل نہیں پاتا کہ کوئی دوسرا بڑا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ اِس میں شک کی کوئیگنجائش نہیں کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ارضِ پاک کی حفاظت کے لئے بےشمار قربانیاں دی ہیں اور اپنا مورال ہمیشہ اونچا رکھا ہے لیکن اُس کے باوجود یہ تاثر ایک مرتبہ پھر عوام میں ابھرتا دکھائی دے رہا ہے کہ پولیس اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ کوئی ایسا ادارہ دکھائی نہیں دے رہا جو پولیس کا احتساب کرتا نظر آئے۔ پولیس نے اپنے محکمےمیں احتساب کا اپنا خود ساختہ نظام قائم کر رکھاہے اور اُس کا موقف ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں اور ’’افسران کے احتساب‘‘ کے علاوہ جزا اور سزا کے متعلق بھی خود فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ بےقصور عوام کو نشانہ بنانے کے واقعات اس قدر تواتر سے ہو رہے ہیں کہ اہلِ اقتدار تک اُن کی آواز شاذو نادر ہی پہنچتی ہے۔ پنجاب میں پولیس کافی حد تک خود مختار اور وسائل سے مالا مال ہے۔ اربوں روپے کا بجٹ ہے اور جب چاہے حکومت سے لاء اینڈ آرڈر کے نام پر مزید فنڈز بھی مانگ لیتی ہے اُس کے باوجود جرائم اور کرپشن کی شرح میں کمی کی بجائے اُس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں اندرونی احتساب کے ساتھ ساتھ پولیس کی (External Accountability)کا نظام بھی ہوتا ہے۔ نیو یارک اور لندن سمیت کئی دوسرے ملکوں میں بھی پولیس شہر کے میئر کے ماتحت ہوتی ہے۔ وہاں پولیس اندرونی احتساب (محکمانہ احتساب) کے علاوہ عوامی نمائندوں اور دیگر اداروں کو بھی جوابدہ ہوتی ہے۔ مشرف مشرف کی پولیس ریفارمز اور پولیس آرڈر 2002کے بعد اِس محکمے کے عوامی نمائندوں اور اداروں کے سامنے احتساب کا کوئی میکنزم نہیں بنایاگیا۔ مجسٹریسی نظام کے خاتمے کے بعد ڈائیلاگ کا عمل ختم ہو گیا جس سے پولیس اور عوام آمنے سامنے آگئے۔ پہلے عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے عوام جیسے لباس میں ملبوس ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر سمیت دیگر سول افسران بیچ بچائو کرا دیتے تھے۔ یہ لوگ عوام اور پولیس کے درمیان (Buffer) کا کردار ادا کرتے تھے۔ پولیس کو گورے نے عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے بنایا تھا۔ انگریز نے پولیس کے احتساب کا کوئی قانون نہیں بنایا کیونکہ اُس کا مقصد صرف سامراج کی حکومت برقرار رکھنا تھا۔ تاریخی طور پر پولیس ریاست کا ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے بنا ہے۔

موجودہ حالات میں یہ بےحد ضروری ہو چکا ہے کہ پولیس کو عوامی نمائندوں کے سامنے جوابدہ بنایا جائے۔ پولیس آرڈر 2002میں پبلک سیفٹی کمیشن کا سسٹم تھا جس میں عوامی نمائندوں نے اِس محکمہ کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا احتساب کرنا تھا۔ یہ سیفٹی کمیشن 18سال گزرنے کے باوجود نہیں بن سکا۔ اب عوامی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ پولیس کہتی ہے کہ اگر عوامی نمائندے پبلک سیفٹی کمیشن میں بیٹھیں گے تو ہمیں مرضی کے مطابق کام نہیں کرنے دیں گے۔ سیاسی مداخلت ہوگی اور میرٹ پر کام نہیں ہوگا۔ پولیس قابو سے باہر ہےاور عوامی نمائندے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ اس کی بڑی مثال سابق اے ایس پی صادق آباد اور موجودہ ایس پی صدر لاہور حفیظ الرحمٰن بگٹی کی ہے جن کے خلاف ممبر صوبائی اسمبلی ممتاز علی نے 24ستمبر 2019کوایوان میں تحریکِ استحقاق ایوان میں پیش کی۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے عوامی نمائندے کے ساتھ مذکورہ افسر کے تضحیک آمیز رویہ پر معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جس نے آر پی او بہاولپور، ڈی پی او رحیم یار خان اور مذکورہ اے ایس پی کو طلب کیا۔ کمیٹی میں معزز رکن اسمبلی اورپولیس افسران کے موقف کو سنا گیا اور اے ایس پی کے تحریری جواب کو بھی کارروائی کا حصہ بنایا گیا۔ پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی نے محکمہ داخلہ کو خط لکھا کہ مذکورہ اے ایس پی کو اسمبلی انکوائری مکمل ہونے تک نوکری سے معطل کیا جائے۔ محکمہ داخلہ نے آئی جی پنجاب اور سیکرٹری سروسز کو کارروائی کے لئے لکھا۔ پی ایس پی افسر چونکہوفاق کا ملازم ہوتا ہے اِس لئے سیکریٹری سروسز نے مذکورہ اے ایس پی کی معطلی کے لئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خط لکھا۔ استحقاق کمیٹی کے معطلی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے کئی یاد دہانی کے خطوط آئی جی پنجاب اور محکمہ سروسز ونگ کو بھیجے گئے لیکن آج سوا سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ نظام احتساب کے لئے کچھ نہیں کر سکا اور مذکورہ افسر ترقی پا کر صوبائی دارالحکومت میں تعینات ہے۔ جب عوامی نمائندوں کا معزز ایوان اور مقتدر ادارے گریڈ 17کے ایک افسر کامل کر بھی آج تک کچھ نہیں بگاڑ سکے تو عوام کی کیا جرأت کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز بھی حلق سے نکال سکے۔ سپریم کورٹ اپنے کئی فیصلوں میں جبر و استبداد اور من مانیاں کرنے والے کئی پولیس افسران کے متعلق احکامات جاری کر چکی ہے کہ انہیں اہم کلیدی عہدوں پر فائز نہ کیا جائے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پولیس کی طرف سے کئے جانے والے ظلم اور زیادتیاں رکوانے کے لئے احتساب کا ایسا میکنزم بنائے جس سے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ ہو سکے۔ آئے روز بےقصور افراد کے ماورائے عدالت قتل پر بنائے گئے جوڈیشل کمیشن اور ان کی سفارشات پر من و عن عمل کروایا جائے جو نہیں ہو رہا۔

تازہ ترین