• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ: اٹارنی جنرل اعتراض پر جواب دیتے جذباتی ہو گئے

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے لیے اوپن بیلٹ کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سینیٹر رضا ربانی کے اعتراض پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان جواب دیتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بنچ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت سینیٹر رضا ربانی نے اعتراض کیا کہ حکومت پارلیمنٹ میں ترمیمی بل لے آئی ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اعتراض پر جواب دیتے ہوئے جذباتی ہوگئے، انہوں نے کہا کہ 2 وزرائے اعظم نے 2006ء میں میثاقِ جمہوریت میں اوپن بیلٹ پر اتفاق کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو 2007ء میں شہید ہو گئیں، اٹھارہویں ترمیم 2010ء میں آئی، اب 10 سال گزر چکے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں سیکرٹ بیلٹ کو ختم کیوں نہ کیا گیا؟ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وعدے پر عمل کیوں نہ ہوا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کیلئے 1 ماہ پہلے مارکیٹ سیٹ اور گھوڑے بک جاتے ہیں، حکومت اس بات سے آگاہ ہے کہ ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں۔

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ حکومتی عمل اختیارات کی تقسیم کے اصول کے منافی ہے۔

چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ سیاسی بیان نہیں دے رہے، اوپن یا سیکرٹ بیلٹ میں آخر کیا اہم بات ہے دیگر کیوں متفق نہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 10 سال پہلے 2 وزرائے اعظم نے وعدہ کیا، اب مزاحمت کر رہے ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ سے مختلف فیصلہ دیا تو ادارے آمنے سامنے آ جائیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین کی تشریح کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہے، سپریم کورٹ نے رائے دینی ہے کہ سیکرٹ بیلٹ ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کہتی ہے کہ آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں تو پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرے گی، شفاف و غیر جانبدار انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شکایت ہو تو الیکشن ٹریبیونل کے سامنے سیکرٹ بیلٹ بھی کھولے جاتے ہیں، سینیٹ انتخابات میں الیکشن ٹریبیونل کا طریقہ کار کیوں نہیں ہو سکتا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جواب پر بھی دلائل دوں گا، الیکشن کمیشن کا جواب کمیشن کے اپنے آئینی اختیار کے حوالے سے تباہ کن ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اگر حکومت صدارتی ریفرنس واپس لیتی ہے تو ٹھیک ہے، اگر حکومت ریفرنس واپس نہیں لیتی تو سپریم کورٹ رائے دے گی۔

تازہ ترین