انسان کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات ہے۔ اس دعوے میں کتنی حقیقت ہے؟ اس کا علم تب ہوتاہے، جب آپ انسانوں کو آپس میں لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ زن، زراور زمین پہ دنیا میں ہمیشہ قتل و غارت ہوتی رہی ہے۔ بسترِ مرگ پہ پڑے ہوئے ایک آدمی نے اپنی بیس ایکڑاور چند کنال زمین اپنے چار بیٹوں میں تقسیم کرنا تھی۔ سب کو اس نے پانچ پانچ ایکڑ دیے اور بڑے بیٹے کو چند کنال اضافی زمین بھی دے دی۔ یہ زمین کوڑیوں کے مول تھی؛ چنانچہ کسی نے اعتراض نہ کیا۔ وقت گزرتا گیا اور اس چند کنال اضافی زمین کے ساتھ سڑک تعمیر ہو گئی۔ اس کی مالیت کروڑوں تک جا پہنچی۔ تنازع اب صرف بیٹوں کے درمیان نہیں تھا بلکہ بیٹوں کے بیٹے بھی میدان میں تھے۔ رنجش بڑھتی گئی۔ آخر ایک دن وہ مسلح ہو کر آئے۔ خاندان کے آدھے مرد باقی آدھوں کو قتل کرنے کے بعد پھانسی پانے کے لئے جیل کا ایندھن بنے۔ زمین ادھر ہی رہ گئی۔ ان کی بیویاں اور بیٹیاں روتی رہ گئیں کہ ایسی زمین کا ہم نے کیا کرنا ہے؟
ابتدا ہی سے زمین حاصل کرنے کے لئے قبائل ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔ اسی زمین کی خاطر بڑے بڑے ملکوں پہ حکومت کرنے والے بادشاہوں نے بھوکوں کی طرح جنگیں لڑیں۔ چین، فلپائن اور جاپان آج بھی جنوبی چین کے جزائر پہ اپنا اپنا حق جتاتے ہیں۔ امریکہ کی بھرپور حمایت جاپان کو حاصل ہے جو چین امریکہ کشیدگی کا باعث ہے۔ یہی صورتِ حال زمین کے اوپر والے حصے آرکٹک کی ہے۔ جب آپ یہ خبر پڑھتے ہیں کہ فلاں ہائوسنگ سوسائٹی نے غربا کے کچّے مکانوں پہ بلڈوزر چلا کر انہیں اپنی حدود میں شامل کر لیا تو کچھ دیر کے لئے یہ بہت کامیاب لوگ لگتے ہیں۔ زمین کی کھدائی کے دوران نیچے سے جب کھنڈرات برآمد ہونے لگتے ہیں تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ آپ زمین کو کہیں سے بھی کھود کر دیکھ لیں۔ ان گنت تہذیبیں زمین کے نیچے دفن ہیں۔ یہ جو موہنجو دڑو اور ٹیکسلا جیسے کھنڈرات برآمد ہوئے ہیں، یہ ایک فیصد بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ زمین، جس کی ملکیت پر ہم جھگڑ رہے ہیں، ہم سے پہلے کتنی ہی تہذیبیں، کتنے ہی معاشرے اس کی مختلف تہوں میں دفن ہیں۔ آج جب زیرِ زمین کھدائی کے دوران سکّے، برتن، اوزار اور ڈھانچے برآمد ہوتے ہیں تو جوش و خروش کے ساتھ ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ وہ لوگ بھی اسی زمین کا حقِ ملکیت رکھتے تھے، جس پہ آج ہم جھگڑ رہے ہیں۔ یہ روّیہ انسانوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں۔ نر شیر بھی اپنا ایک علاقہ متعین کرتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے کو اس کی حدود میں قدم نہیں رکھنے دیتے۔ پھر جب ان کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو باہر سے حملہ آورہونے والے جوان شیر انہیں بے دخل کر دیتے ہیں۔ اور تو اور درختوں کی شاخوں پر کیڑے بھی اپنی شاخ کی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ اس درخت سمیت پورا جنگل شیروں کے ایک گروہ کی ملکیت ہے اور وہ آج ہی اس پر اپنے نشان بھی لگا کر گیا ہے۔ شیر بھی نہیں جانتے کہ پورا جنگل انسانوں کی ملکیت ہے۔ انسان بھی نہیں جانتا کہ یہ جنگل کسی اور کی ملکیت ہے۔ اسے تو ایک روز خالی ہاتھ مر نا ہے۔
چاند اور مریخ بھی تو زمینیں ہیں۔ کھربوں ایکڑزمینیں بے آباد پڑی ہیں۔ یہاں سونے، چاندی اور لوہے کے ذخائر بکھرے پڑے ہیں۔ زحل کے چاند ٹائٹن پہ تیل کے سمندر بہہ رہے ہیں۔ ہماری زمین پر ایک ایک مرلے کی قیمت لاکھوں روپے میںہے۔ ہم سب اس پہ جھگڑتے پھرتے ہیں۔ایک دوسرے کو مارنے کے لئے ہر طرح کے ہتھیار ہم نے تیار کیے ہیں۔ اس پہ ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔ انسان جانوروں ہی کی طرح پیدا ہوتا، جانوروں ہی کی طرح کھاتا پیتا، جانوروں ہی کی طرح جھگڑتا اور جانوروں ہی کی طرح مر جاتا ہے۔ محض لباس پہننے اور پختہ گھروں میں رہنے کی وجہ سے کسی کو اشرف المخلوقات قرار نہیں دیا جا سکتا اور وہ بھی اس وقت، جب اس کا باقی تمام طرزِ عمل درندوں جیسا ہو۔ ہاں، کچھ ہیں، جنہیں یہ لقب دیا جا سکتا ہے۔
ایک شخص ہے، جو دن بھر مزدوری کرتا، پیٹ بھر کے کھانا کھاتا او ر گہری نیند سو جاتاہے۔ ایک دوسرا شخص ہے، جس کی جائیداد دس ارب ڈالر ہے۔ اس کا نظامِ انہضام پریشانی کی شدت سے خراب رہتا ہے۔ وہ ذرا سا کھانا مشکل سے کھاتا ہے۔ پھر خوراک ہضم کرنے کی دوا کھاتا ہے۔ پھر ڈپریشن کی ادویات لیتا ہے۔ آپ کے خیال میں کس کا رزق زیادہ ہے؟ جو جی بھر کے کھانا کھاتا ہے یا وہ، جس کے اکائونٹ دولت سے لبریز ہیں؟ حدیث کے مطابق رزق تو فقط وہی ہے، جو کہ ہم کھا لیتے ، استعمال کر لیتے ہیں یا وہ جو خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں۔ جو دولت بینک میں جمع رہتی ہے، وہ بینک اور ورثا کا رزق تو ہو سکتی ہے، ہمارا ہرگز نہیں۔
اشرف المخلوقات وہ ہیں، جنہیں معلوم ہے کہ خواہش اور عقل جیسی دو انتہائی متضاد چیزیں ہمارے دماغ میں ایک دائمی کشمکش کیلئے رکھی گئی ہیں ۔ اشرف المخلوقات علم والے ہیں۔ جو تخلیق کو دیکھتے ہوئے خالق کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ جو خوشدلی سے اپنی آزمائش سے گزرتے ہیں، جب غلطی کرتے ہیں تو پلٹ جاتے ہیں۔ جو کرّۂ ارض پر وسائل کی چھینا جھپٹی اور قتل و غارت سے دور رہتے ہیں۔ اس سب کے بعد بھی وہ کسی عظمت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ وہ ہیں اشرف المخلوقات۔ اور باقی؟ باقی تومحض چالاک درندے ہیں۔