• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر جو بائیڈن نے امریکی سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ وائٹ ہائوس میں بائیڈن کے ابتدائی ہفتے چیلنجز سے بھرپور ہوں گے جن میں سرِ فہرست تیز رفتاری سے ترقی کرتے چین کے ساتھ تمام محاذوں پر مسابقت ہے۔ چین ترقی اور برتری کا ہر ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ 40سال سے بھی کم عرصے میں، چین نے بین الاقوامی تجارت میں اپنا کردار دس گنا بڑھا لیا ہے۔ تجارت تو محض شروعات تھی، چین اب انتہائی برق رفتاری سے اپنی فوجی اور تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں اُس کا اثر و رسوخ اور اعتماد حیران کن ہے۔ جو بائیڈن غیرارادی طور پر بہت دبائو میں ہوں گے، وہ ایک اور سرد جنگ کا آغاز بھی کر سکتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر جنگ چھڑنے کے امکانات منڈلاتے رہیں گے لیکن ایسا ہونے سے امریکہ عالمی حکمرانی کی دوڑ میں چین کے مقابل اپنا مقام کھو دے گا۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین امیدیں اور خدشات دونوں موجود ہیں۔امریکہ اور چین سفارتی تعلقات کے متعدد مراحل سے گزرے ہیں۔ چینی تہذیب 4000سال پرانی ہے، چین 1980کی دہائی سے اُبھرنا شروع ہوا۔ ابتدا سے ہی امریکہ نے چین کے ساتھ سوویت یونین جیسا معاملہ رکھا۔ امریکہ نے آزادی اور جمہوری اقدار کا نعرہ بلند کیا۔ دوسری جانب چین کی مرکزی کمیونسٹ پارٹی نے بدحالی پر قابو پانا شروع کیا اور ایک دہائی بعد ہی کامیابی کی جانب گامزن ہو گی۔ ہنری کسنجر اُن پہلے سفارتکاروں اور اسکالرز میں سے تھے جنہوں نے چین امریکہ تعلقات کی داغ بیل ڈالی لیکن یہ ایک غیرفطری تعلق تھا۔ امریکیوں نے کبھی قبول نہیں کیا کہ روسی کمیونزم کامیاب ہو سکتا ہے۔ چین کے لئے بھی اُن کے یہی نظریات تھے۔ 2000کے بعد چین نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا کیونکہ دنیا کے بڑے کاروباری اداروں نے چین کو اپنی صنعتی ترجیحات کے لئے منتخب کیا۔ سستی افرادی قوت ، صنعتی سہولیات، کم اخراجات، سیاسی استحکام، بدعنوانی کا نہ ہونا اور کاروبار دوست پالیسیوں نے چینی حکومت کی معاشی قوت کو پر لگا دیے۔ 2010تک، چین نے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکال لیا۔ جمہوریت کے بغیر بھی چین نے ناقابلِ فہم کامیابیاں حاصل کیں۔

اُس نئے چین کے لئے، جو سوویت یونین کے برعکس ترقی کر رہا تھا، اوباما انتظامیہ نے حد سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کیا۔ نتیجتاً چین فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا اور ایک اہم عالمی کھلاڑی کی حیثیت سے ابھرا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے معاندانہ رویہ اختیار کیا اور چینی نمو کو بزور طاقت روکنے کے لئے درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ چین نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے امریکی سامان پر درآمدی ڈیوٹی عائد کردی۔ چین اور امریکہ کے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے۔ ٹرمپ کے قوم پرست نظریات نے بین الاقوامی سیاست میں امریکی گرفت کو کمزور کیا، چین نے ایک بار پھر اس کا فائدہ اٹھایا۔ بیجنگ کو اب واشنگٹن سے زیادہ ذمہ دار عالمی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔نتیجے کے طور پر برکس (BRICS)، (OBOR)اور (CPEC)سامنے آئے۔ ٹرمپ چینی تجارتی مفادات کو نقصان پہنچا کر امریکی کاروبار کو فروغ دینا چاہتے تھے لیکن اپنے اقدامات سے بالکل الٹ کر بیٹھے۔ بائیڈن پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کی چین سے متعلق پالیسیاں جاری رہیں گی نہ ڈبلیو ٹی او اور اُس کے ضوابط کو نظرانداز کیا جائے گا۔ بائیڈن 8سال تک اوباما کی ٹیم میں سرفہرست تھے لیکن وہ چین کے بارے میں اوباما کی پالیسیوں کو دہرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جو لکیر کھنچ چکی ہے اسے قائم رہنا ہے۔ چین 2025تک تجارت اور GNPمیں امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ بائیڈن کی چین سے متعلق پالیسی تیار کرنے والی اپنی ٹیم منقسم ہے۔ امریکہ کی حکومت تجارتی میدان میں صحت مندانہ مقابلہ کی فضا قائم کرکے امن کو فروغ دے سکتی ہے، جس سے حوصلہ افزانتائج برآمد ہو سکتے ہیں، دوسری طرف، اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ چین کی ترقی امریکی طاقت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے، فوجی تصادم کے امکانات ہیں یہاں تک کہ تیسری عالمی جنگ کا خدشہ بھی موجودہے۔ ژی جن پنگ نے کھلے لفظوں میں مثبت سوچ کے تحت پرانی ذہنیت کو تبدیل کرنے پر زور دیا ہے۔

پروفیسر کشور محبوبانی امریکہ چین معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اپنی کتاب اور لیکچرز میں، انہوں نے بار بار اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ امریکی سیاست ضرورت سے زیادہ ضدپر مبنی ہے۔ چین ایک حقیقت ہے، دنیا ایک بار پھر یونی پولر نہیں ہو سکتی۔ امریکہ بطور قوم صرف 250سال پرانا ہے، جبکہ چین 4000سال پرانی تہذیب رکھتا ہے۔ انہوں نے درست نکتہ اٹھایا کہ امریکہ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جمہوریت اور فری مارکیٹ ترقی اور غلبہ حاصل کرنے کا واحد راستہ نہیں ہیں، اسی طرح صحت مند مسابقت کا مطلب محاذ آرائی نہیں ہوتا۔ اس نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، بائیڈن انتظامیہ کو مخالفت اور مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان نکات کو سمجھنا ہوگا۔ جمہوریت ہر خطے یا ملک کیلئے موزوں نہیں ہوتی۔ چین ون پارٹی کے تحت گورننس کی زندہ مثال ہے اس کے سیاسی ڈھانچے کی حقیقت کوتسلیم کیے بغیر نتیجہ خیز بات چیت نہیں ہو سکتی۔جو بائیڈن نے ٹرمپ انتظامیہ کی حکمتِ عملی کے برعکس 200سے زائد ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے ہیں۔ بائڈن جو حکمتِ عملی چین کے لیے اختیار کرنے جا رہے ہیں اس کا اثر لاکھوں افراد پر ہوگا۔ اگر بائیڈن تصادم کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو چین بھی اس کیلئے تیار ہے۔ ٹرمپ کے بعد، بائیڈن کو نئے سرے سے آغاز کرنا ہے۔ چین نے بائیڈن کا خیرمقدم کرتے ہوئے مثبت اشارے دیے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین تنازع، تائیوان، ہانگ کانگ، آب و ہوا کا معاملہ، ایران، تجارت اور ڈبلیو ایچ او غور طلب معاملات ہیں۔ اگر بائیڈن چینی اور امریکی عوام کے خیر خواہ ہیں تو ان کو احتیاط سے چلنا پڑے گا۔

تازہ ترین