• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کو وفاقی وزیر نے ناکام بنا دیا ہے۔ ان کے حساب سے صرف تین ہزار ہی افراد آئے تھے جبکہ ن لیگ والوںکا کہنا ہے کہ مجمع دس ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ جبکہ وزیر داخلہ نے تنبیہ کی تھی اگر مدرسے کے طلبا آئے تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔ مولانا کے ساتھ افرادی قوت کم نہیں ہے وہ اس اجتماع میں طلبا کو نہیں لائے ۔اگر فرض کرلیا جائے کہ احتجاج میں 3ہزار لوگ تھے تو کیا 3ہزار لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ وزیر موصوف بلا سوچے سمجھے بیان داغ دیتے ہیں حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا یا تو وہ کچھ زیادہ ہی عقل مند ہیں یا عوام کو بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ دراصل الیکشن کمیشن پر احتجاج اس لیے کیا گیا تھا کہ عمران خان کے اپنے ایک ساتھی نے ان پر فارن فنڈنگ کا الزام لگایا اس مقدمہ کو گزشتہ چھ برسوں سے لٹکا کے رکھا ہوا ہے کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہیں ہے مقدمہ دائر کرنے والی شخصیت نے تمام اہم ثبوت پہلے ہی جمع کرا دیے لیکن سرخ فیتہ آڑے آتا رہا ہے۔ اب ﷲ ﷲ کر کے اس کا نمبر آیا ہے وہ بھی جب مولانا صاحب اور ان کے اتحادیوں نے اس معاملے کو اچھالا تو الیکشن کمیشن کو ہوش آیا ہے اب بھی اگر اس کیس کو پہلے کی طرح لٹکائے رکھتا ہے تو اس کا علاج نہیں ہے ۔حکومتی ادارے تو مولانا اور ان کے ساتھیوں کو اپنی کارکردگی سے مجبور کر رہے ہیں کہ وہ شور شرابہ کریں اوربڑی دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے انصاف کو دھول چٹاتے رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کا مقدمہ صرف عمران خان اور تحریک انصاف پر نہیں یہ مقدمات مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف بھی قائم ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ان مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آجائے الیکشن کمیشن ملک کا موقر ادارہ ہے۔ یہ ادارہ معتبر اور معزز تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی نیک نامی پر حرف نہ آنے دے اور انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ یہ بھی درست ہے کہ فارن فنڈنگ جن جماعتوں نے کی ہے انہوں نے ملنے والی رقوم کی وصولی میں مروجہ قانون سے انحراف کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معاملات کو تیزی سے نمٹایا جائے۔

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے کیا جانے والا احتجاجی مظاہرہ کیس کا فیصلہ جلد از جلد کرانے کے لیے کیا گیا پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سمیت اور لوگوں نے بھی خطاب کیا، خوب گرما گرم شدید تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن حکومتی جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا جلد از جلد فیصلہ کرے تاخیر مزید برداشت نہیں کی جائے گی۔ ریڈ زون کے انتہائی حساس علاقے میں اپوزیشن نے زبانی کلامی جو کہنا تھا کہا لیکن کوئی غیرقانونی حرکت نہیں کی۔ حکومت نے نہ صرف اجازت دی بلکہ سیکورٹی کا بھی انتظام سخت کیا تھا۔ حکومت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی مظاہرین پوری سہولت کے ساتھ الیکشن کمیشن کی عمارت کے باہر جمع ہوگئے اپوزیشن نے بھی جمہوری روایات کو قائم رکھا احتجاج مکمل ہونے پر مظاہرین نے کسی قسم کی بد نظمی کا مظاہر ہ نہیں کیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔

اب تک مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھی حمایتی صرف زبانی کلامی احتجاج کر رہے ہیں جو بغیر کسی نتیجہ کے تمام ہو جاتا ہے، بیان بازی میں بڑی بڑی چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کو دی گئی آخری تاریخ استعفیٰ کی وہ بھی آرام سے بغیر کچھ لیے دیے گزر گئی۔ عوام انتظار ہی کرتے رہے جس کی آس دلائی گئی تھی یعنی وزیر اعظم نے بلا خوف و خطر استعفیٰ نہیں دیا۔ بلکہ ان کے ساتھیوں نے جو نہیں بھی کہنا تھا خوب کہا، اپوزیشن کی طرف سے حسبِ معمول دو اور دو چار کی جگہ پانچ کا فارمولا آزمایا جا رہا ہے۔ برف خانے کے چمار کی طرح اب کے مارے سو جانوں اور ہر بار پٹتا رہا۔ وزیراعظم عمران خان کو تو مسٹر یوٹرن کا خطاب دے دیا تھا لیکن عملا اپوزیشن بھی قلابازیاں خوب کھا رہی ہے۔ پہلے فیصلہ کیا گیا کہ ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے پھر میدان سجا تو سب کے ساتھ میدان میں اتر پڑے۔ اپنا کہا بھول گئے۔ ایسا ہی سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں ہو رہا ہے۔ ﷲ جانے یہ صرف زبانی کلامی حد تک احتجاجی مہم چلتی رہے گی یا عمل بھی کچھ ہوگا۔ ﷲ ہماری ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے، آمین۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین