• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یثرب میں ایک ماہ قیام کے بعد حضرت سیّدہ آمنہؓ نے اپنے 6 سالہ صاحب زادے اور کنیزِ خاص ’’برکہ‘‘ کے ساتھ مکّہ واپسی کا قصد کیا، تو قبیلہ بنو نجار کے لوگوں نے اُنہیں بے حد محبّت اور گرم جوشی سے رُخصت کیا۔ تین نفوسِ قدسیہ پر مشتمل یہ پاکیزہ قافلہ خوش و خرّم، خراماں خراماں مکّے کی جانب رواں دواں تھا، جہاں بوڑھے دادا نہایت بے چینی سے اپنے لاڈلے پوتے اور نیک سیرت بہو کے منتظر تھے۔ ابھی یہ لوگ یثرب اور مکّہ کے درمیان ایک مقام ’’ابواء‘‘ تک ہی پہنچے تھے کہ سیّدہ آمنہؓ کو شدید تھکن اور طبیعت کی خرابی کا احساس ہوا، جس پر سفر موقوف کرنا پڑا۔ 

اس سنگلاخ چٹیل وادی میں یہ قیام من جانب اللہ تھا، جو اپنے محبوب نبیﷺ کو بچپن ہی میں ایک کڑے امتحان سے گزار کر رہتی دنیا تک کے بِن ماں، باپ بچّوں کے لیے عزم و ہمّت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کرنا چاہتا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، سیّدہ آمنہؓ کی طبیعت مزید خراب ہوتی جا رہی تھی۔ کنیز برکہ اُن کے سرہانے مغموم کھڑی تھیں، جب کہ بازو سے چِمٹے ننّھے صاحب زادے نہایت بے قراری کے عالم میں پیاری ماں کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ 

ماں نے آنکھیں کھولیں، چہرے پر شدید کرب کے آثار تھے، ڈبڈباتی آنکھوں سے جگر گوشے کے اُداس، معصوم، نورانی چہرے کی جانب دیکھا اور پھر لختِ جگر کا ہاتھ کنیز کے حوالے کرتے ہوئے نہایت دردناک انداز میں گویا ہوئیں ’’اے برکہ! ہمارے شہزادے کا خیال رکھنا۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ ہی بند آنکھوں سے آنسوئوں کے چند قطرے پلکوں کی رکاوٹیں توڑ کر بہہ نکلے اور یہی وہ لمحہ تھا، جب موت کا فرشتہ روح قبض کرکے آسمانوں کی جانب جا رہا تھا۔ چھے سالہ یتیم بچّے نے اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو اللہ کی جانب لَوٹتے دیکھا، تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ بہتے اشکوں کے ساتھ بے قرار ہو کر ماں سے لپٹ گئے۔ وہ ایک قیامت خیز منظر تھا۔ 

برکہ کے سامنے ایک طرف غم سے نڈھال، روتے بلکتے ننّھے، حضرت محمّدﷺ تھے، تو دوسری طرف، سیّدہ آمنہؓ کا جسدِ مبارک اور اوپر سخت چٹانوں کے درمیان آگ برساتا سورج۔ اُس باہمّت کنیز نے کس طرح قریب کی بستی سے لوگوں کو بُلا کر تدفین کا بندوبست کیا ؟ اور کس طرح غم و اندوہ کے سائے میں بچّے کو اپنی آغوش میں سمو کر مکّے کا طویل سفر کیا ہوگا؟ ان الم ناک مناظر کے تصوّر ہی سے وجود لرز جاتا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ آپﷺ اُونٹ پر برکہ کے آگے بیٹھے پورے راستے روتے ہوئے پیچھے مُڑ مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ450 کلو میٹر کا یہ غم ناک سفر ختم ہوا اور دادا، عبدالمطلب نے اپنے چہیتے پوتے کو اپنی بوڑھی، مگر مضبوط بانہوں میں چُھپا لیا۔

نام و نسب

برکہ نام کی یہ جلیل القدر کنیز تاریخ میں ’’اُمّ ِ ایمن‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ حبشہ سے تعلق رکھنے والی یہ برگزیدہ خاتون بچپن ہی میں نبی کریمﷺ کے والدِ گرامی، حضرت عبداللہؓ کی خدمت گزار مقرّر ہوئیں۔اُن کے انتقال کے بعد وہ آنحضرت ﷺ کی والدۂ محترمہ کی خدمت کرنے لگیں ۔ جب اُن کا انتقال ہوا، تو حضور ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے اُمّ ِ ایمن کو اپنے چھے سالہ پوتے، حضرت محمّد ﷺ کی پرورش اور دیکھ بھال کے لیے مقرّر کر دیا ۔ نام برکہ، کُنیت اُمّ ِ ایمن، عرفیت اُمّ الظباء اور سلسلۂ نسب یوں ہے: برکہ بنتِ ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان۔

نکاح اور اولاد

بی بی آمنہؓ کے انتقال کے بعد آنحضرتﷺ کی پرورش کی تمام تر ذمّے داری اُمّ ِ ایمن پر آگئی(اصابہ212/8)۔وہ نہایت نیک اور صالح خاتون تھیں۔ صبرو استقامت، فہم و فراست کی پیکر اور محبّت و شفقت کا خزینہ ۔ حضورﷺ سے بے انتہا محبّت کرتی تھیں۔ جب آپﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح فرمایا، تو اُنہیں آزاد کر دیا۔ اُمّ ِ ایمنؓ کا پہلا نکاح عبید بن زید سے ہوا، جن سے اُن کے ہاں ایمن نامی بیٹا پیدا ہوا۔ اُن ہی کے نام پر اُن کی کنیت’’ اُمّ ِ ایمنؓ‘‘ مشہور ہوئی۔ حضرت ایمنؓ کو شرف صحابیت حاصل ہوا اور وہ غزوۂ حنین میں شہید ہوئے۔حضرت عبیدؓ بھی مسلمان ہو گئے تھے، تاہم وہ بیٹے کی پیدائش کے کچھ ہی دنوں بعد وفات پا گئے۔ 

ایک دن آپﷺ نے مسجدِ نبویؐ میں صحابۂ کرامؓ سے فرمایا ’’اگر کوئی شخص ایسی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے، جو اہلِ جنّت میں سے ہیں، تو اُمّ ِ ایمنؓ سے نکاح کر لے۔‘‘ رسول اللہﷺ کے اِس اعلان کے بعد آپﷺ کے منہ بولے بیٹے اور آزاد کردہ غلام، حضرت زید بن حارثہؓ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت زیدؓ بھی حبشہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چناں چہ آنحضرتﷺ نے اُن کا نکاح اُمّ ِ ایمنؓ سے کر دیا، جن سے حضرت اُسامہ بن زیدؓ پیدا ہوئے۔ حضورﷺ ان دونوں باپ، بیٹے کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے اور یہ آنحضرتﷺ کے گھر کے افراد کی طرح رہتے تھے۔ حضرت زیدؓ 8ہجری میں جنگِ موتہ میں شہید ہوئے۔

آسمان سے پانی کا ڈول اُترا

مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت اُمّ ِ ایمنؓ نے دیگر مسلمانوں کے ساتھ حبشہ بھی ہجرت کی تھی، لیکن اُن کے ہجرتِ مدینہ کا سفر نہایت منفرد اور ایمان افروز ہے۔ ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ’’ اُمّ ِ ایمنؓ نے جب ہجرت کی تو روحاء سے کچھ پہلے منصرف کے مقام پر شام ہو گئی۔ وہ روزے سے تھیں اور اُنہیں شدید پیاس لگ رہی تھی۔ حلق میں گویا کانٹے پڑ گئے تھے۔ قرب و جوار میں کہیں پانی نہیں تھا۔ پیاس کی شدّت انتہا کو پہنچ گئی اور قریب تھا کہ غشی طاری ہو جاتی، اچانک آسمان سے پانی سے بھرا ایک ڈول اُن کے چہرے کے پاس آکر رُک گیا، جس سے موتیوں کی مانند سفید قطرے ٹپک رہے تھے۔ 

حضرت اُمّ ِ ایمنؓ نے اُس میں سے جی بھر کر پانی پیا۔ وہ فرمایا کرتی تھیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی پیاس کی شدّت محسوس نہیں ہوئی۔ مَیں سخت سے سخت دوپہر اور گرم ترین دنوں میں بھی روزے سے ہوتی، لیکن وہ پانی پینے کے بعد کبھی پیاس کی تکلیف نہیں اُٹھائی‘‘ (طبقات ابنِ سعد381/8) ۔مشہور مؤرخ ابونعیم اصفہانی لکھتے ہیں کہ ’’اُمّ ِ ایمنؓ نے یہ سفر پیدل طے کیا تھا‘‘ (حلیۃ الائولیاء 80/2)۔

مزاحِ نبویؐ سے مجلس کشتِ زعفران بن گئی

دنیا میں تین ایسی معزّز و برگزیدہ خواتین گزری ہیں، جنہیں امام الانبیاء، سرکارِ دو عالمﷺ نہ صرف’’ امّاں جان‘‘ کہہ کر پکارتے، بلکہ ہمیشہ ماں کی حیثیت سے یاد فرمایا کرتے۔ اُن میں ایک آپﷺ کی حقیقی والدہ بی بی آمنہؓ ، دوسری دائی حلیمہؓ اور تیسری حضرت اُمّ ِ ایمنؓ تھیں۔ آپﷺ حضرت اُمّ ِ ایمن کے بارے میں فرمایا کرتے تھے’’ یہ میرے گھر والوں کی باقی ماندہ نشانی ہیں۔‘‘ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرتﷺ مسجدِ نبوی میں صحابۂ کرامؓ کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے۔مسلمانوں کے مالی حالات بہت بہتر ہو چُکے تھے۔ غریب غرباء پر حضورﷺکا فیضانِ عام جاری تھا کہ اچانک بارگاہِ رسالتؐ میں ایک حبشی النسل بلند قامت خاتون حاضر ہوئیں۔ 

جیسے ہی حضورﷺ کی نظرِ مبارک اُن پر پڑی، تو آپﷺ تیزی سے کھڑے ہوگئے اور’’ میری امّاں جان‘‘ کہتے ہوئے اُن کی طرف لپکے۔ اُنہیں نہایت ادب و احترام کے ساتھ لے کر آئے، اپنی چادر بچھائی اور فرمایا’’امّاں جان! یہاں تشریف رکھیے۔‘‘ انصارِ مدینہ اُن خاتون سے زیادہ واقف نہ تھے، لہٰذا حضورﷺ کی جانب سے ادب و احترام کا یہ مظاہرہ دیکھ کر بے حد حیران ہوئے۔ صحابہ کرامؓ نے اُنہیں بتایا کہ’’ یہ حضورﷺ کی والدہ، حضرت اُمّ ِ ایمنؓ ہیں۔‘‘ بہرحال، آپﷺ نے فرمایا’’ امّاں جان کیسے آنا ہوا…؟‘‘ بولیں’’ اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے پاس سواری کا کوئی جانور نہیں ہے، لہٰذا سفر میں بڑی دقّت پیش آتی ہے۔ کوئی اونٹ عنایت فرما دیں۔‘‘ اِس پر آپﷺ نے فرمایا’’ امّاں جان! مَیں آپ کو ایک اونٹ کا بچّہ دے دیتا ہوں۔‘‘ اُمّ ِ ایمنؓ بولیں’’ مَیں اونٹ کے بچّے کو لے کر کیا کروں گی؟ 

مجھے تو فوری سواری کے لیے اونٹ چاہیے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’مگر مَیں تو آپ کو اونٹ کا بچّہ ہی دوں گا۔‘‘ اُمّ ِ ایمنؓ کچھ حیرانی اور کچھ محبّت بھری خفگی کے ساتھ بولیں’’ یارسول اللہﷺ! اونٹ کا بچّہ میرے کس کام کا، وہ تو میرا وزن بھی نہیں اُٹھا سکتا۔‘‘ حضورﷺ نے خادم کو اشارہ کیا اور فرمایا ’’میری ماں، مَیں تو آپ کو اونٹ کے بچّے ہی پر سوار کروا کے گھر بھیجوں گا۔‘‘ اِتنے میں خادم ایک فربہ اور خُوب صُورت اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ حضورﷺ نے مُسکراتے ہوئے فرمایا’’ امّاں جان! ہر اونٹ، اونٹ کا بچّہ ہی تو ہوتا ہے۔‘‘ آپﷺ کے اس پُر لطف مزاح پر اُمّ ِ ایمنؓ سمیت پوری مجلس کشتِ زعفران بن گئی۔ اُمّ ِ ایمنؓ نے اونٹ کی نکیل تھامی اور دعائیں دیتی ہوئی ہنسی خوشی واپس ہو گئیں(طبقات ابن سعد382/8)۔

انصار کے باغات کی واپسی

انصارِ مدینہ نے حضورﷺ کو بہت سے باغات دیئے تھے، جو آپﷺ نے مہاجرین میں تقسیم کر دیے۔ فتحِ خیبر کے بعد آپﷺ نے وہ باغات انصار کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ حضرت انسؓ کی والدہ کا باغ اُمّ ِ ایمنؓ کو ملا تھا۔ حضرت انسؓ اُن کے پاس آئے، تو اُمّ ِ ایمنؓ نے باغ واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ آنحضرتﷺ کو جب علم ہوا، تو اُنھیں اس باغ سے کئی گُنا زیادہ عطا فرمایا(صحیح بخاری2630)۔ اُمّ ِ ایمنؓ نے غزوۂ اُحد میں شریک ہو کر زخمیوں کو پانی پلانے اور اُن کی مرہم پٹی کی خدمت سَرانجام دی۔ پھر غزوۂ خیبر میں بھی شریک ہوئیں۔

اسلام سے محبّت

جب رسول اللہﷺ نے انتقال فرمایا، تو اُمّ ِ ایمنؓ زار و قطار رو رہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عُمرؓ نے اُنہیں سمجھانا چاہا، تو بولیں’’ میرے رونے کا اصل سبب یہ ہے کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا‘‘ (مسلم341/2)۔ 23ہجری میں سیّدنا عُمر فاروقؓ نے شہادت پائی، تو بھی اُمّ ِ ایمنؓ بہت روئیں۔ لوگوں نے کہا کہ’’ اِتنا کیوں روتی ہیں؟‘‘ تو بولیں’’ اِس لیے روتی ہوں کہ اب اسلام کم زور پڑ گیا‘‘ (اصابہ214/8)۔

وفات

حضرت اُمّ ِ ایمنؓ 20 برس تک حضرت زید بن حارثہؓ کے نکاح میں رہیں۔ تقریباً 12سال مکّے میں اور لگ بھگ 8سال مدینہ منوّرہ میں دونوں میاں بیوی دن رات آنحضرتﷺ کی خدمت پر مامور رہے۔ جنگِ موتہ میں حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد اُنہوں نے نکاح نہیں کیا ۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ابتدائی دَور میں مدینہ منوّرہ میں وفات پائی اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔

تازہ ترین