اسلام آباد (اعزاز سید) ڈینیئل پرل کیس سندھ پولیس نے دو گرفتار ملزمان فہد نسیم اور سید سلمان ثاقب کے اعترافی بیانات کی بنیاد پر قائم کیا تھا۔ دونوں ملزمان نے ڈینیئل پرل کے اغوا کے پیغام کو منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور بعد میں امریکی صحافی کی رہائی کے لیے مطالبات کیے تھے۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے احمد عمر شیخ کی ہدایت پر عمل کیا تھا۔پولیس اور استغاثہ کے مطابق، 30 جنوری، 2002 کو دونوں کی جانب سے کی گئی آخری ای میل میں امریکی صحافی کی رہائی کے لیے مطالبات کیے گئے تھے۔
اس میں اسلام آباد میں حراست میں لیے گئے افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی رہائی (جنہیں بعد ازاں امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا)، پاکستان کو ایف۔16 طیاروں کی فراہمی اور کیوبا کی گوانتاناموبے جیل میں قید مسلمان قیدیوں کی رہائی کے مطالبات شامل تھے۔
ای میل میں کہا گیا تھا کہ اگر یہ مطالبات 24 گھنٹے کے اندر پورے نا کیے گئے تو وہ ڈینیئل پرل کو قتل کردیں گے۔جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیانات میں ملزمان نے کہا کہ عمر شیخ نے انگریزی اور اردو میں ہاتھ سے تحریر کیے گئے مطالبات کی فہرست فراہم کی تھی۔
آخری ای میل نسیم نے اپنے رشتہ دار کے گھر سے بھیجی تھی کیوں کہ عمر شیخ نے دونوں کو سختی سے منع کیا تھا کہ انٹرنیٹ یا ای میل کا استعمال اپنے گھروں سے نا کریں۔ جب کہ انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے ہی تحقیقیات کار ملزم تک پہنچے۔
ان دونوں ملزمان کے اعترافی بیانات جوڈیشل مجسٹریٹ ارم جہانگیر نے ریکارڈ کیے۔ انہوں نے اعترافی بیانات کے علاوہ اضافی نوٹ بھی لکھا کہ دونوں ملزمان نے یہ بیانات رضاکارانا طور پر نہیں دیے ہیں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ سوال جواب کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچی کہ دونوں ملزمان پر دوران حراست یا تو ٹارچر کیا گیا یا انہیں کہا گیا کہ وہ اعترافی بیانات دینے کے بعد ضمانت پر رہا ہوجائیں گے۔ مجسٹریٹ کے اضافی نوٹ کی وجہ سے دونوں اعترافی بیانات شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔
قانونی طورپر صرف رضاکارانہ طور پر دیئے گئے اعترافی بیانات کی ہی عدالت میں اہمیت ہوتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر پولیس اور استغاثہ نے اس حقیقت کو نظرانداز کیا اور کیس کی بنیاد ہی ان کمزور بیانات پر رکھی، جسے فریق مخالف نے عدالت میں رد کردیا۔
ایسا کیوں کیا گیا؟ پولیس نے کیس کو کمزور بنیاد پر کیوں قائم کیا؟ مزید ثبوت کیوں جمع نا کیے گئے؟ کیا ایسا غلطی سے ہوا یا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا؟اس کے علاوہ تحقیقات میں دیگر کمزوریاں بھی نظر آئیں۔
استغاثہ کی ناکامی کا ایک اور ثبوت ہینڈرائٹنگ ایکسپرٹ غلام اکبر کو عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ جس نے اپنی رائے میں کہا کہ دونوں ملزمان کو فراہم کیے جانے والے پیپرز جس میں ڈینیئل پرل کی رہائی کے مطالبات تھے وہ عمر شیخ نے لکھے تھے۔
پولیس اور استغاثہ نے ہینڈرائٹنگ ماہر کی اہلیت کو نہیں جانچا ، جس کے پاس نا ہی اس میں مہارت تھی اور نا ہی تجربہ تھا۔ غلام اکبر کی رائے اس کیس میں خاصی اہمیت کی حامل تھی۔ انگریزی میں لکھا ہوا حصہ عمر شیخ کا تھا ، جب کہ اردو والا حصہ عادل نامی ملزم نے لکھا تھا۔
تحریر کے یہی حصے عمر شیخ نے نسیم اور ثاقب کو دیئے تھے۔ تاہم، عمر شیخ کے وکیل محمود احمد شیخ کی جانب سے ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی قابلیت پر اٹھائے گئے سوالات سے یہ ثابت ہوا کہ اس کی رائے پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح پولیس کا ایسے شخص کی رائے پر انحصار جو کہ اس شعبے میں مہارت ہی نہیں رکھتا، کے سبب کیس کمزور ہوا۔
ثاقب اور نسیم کے معاملے کا مزید جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ جس لیپ ٹاپ سے ڈینیئل پرل کے اغوا کی ای میل بھیجی گئی تھی وہ ان کی گرفتاری کے وقت ہی بازیاب کیا گیا تھا مگر استغاثہ نے اس حوالے سے بھی کوتاہیاں کیں۔
پولیس نے موقف اختیار کیا کہ لیپ ٹاپ ملزم سےآدھی رات کو بازیاب کیا گیا تھا۔ جب کہ امریکا کے ایف بی آئی کمپیوٹر فارینزک ماہر اور گواہ رونلڈ جوزف کے مطابق، اسے پاکستان آنے سے دو روز قبل یعنی 29 جنوری، 2002 کو بتایا گیا تھا کہ اسے پاکستان میں ایک لیپ ٹاپ کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔امریکی فارینزک ماہر 4 فروری، 2002 کو پاکستان پہنچا اور اسے اسی شامل کمپیوٹر دیا گیا۔
وہ اس پر چھ روز تک مسلسل چار سے چھ گھنٹے کام کرتا تھا۔ عدالت نے موقف اختیار کیا کہ اگر امریکی ماہر کو لیپ ٹاپ سے متعلق 29 جنوری کو آگاہ کیا گیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈینیئل پرل کے اغوا سے متعلق ای میل 30 جنوری کو بھیجی گئی؟
اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ کمپیوٹر اسرا نعمانی (جو کہ ڈینیئل پرل کی دوست تھی) کا تھا۔ جب کہ ملزمان کی بھیجی گئی ای میلز جو عدالت میں پولیس نے پڑھ کر سنائی وہ کونسے کمپیوٹر سے حاصل کی گئی تھی؟ پولیس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ عدالت میں کونسا کمپیوٹر پیش کیا گیا تھا؟عدالت نے واضح کیا کہ یا تو کمپیوٹر بازیابی کا وقت غلط لکھا گیا ہے یا ایف بی آئی ماہر کی رائے اس حوالے سے غلط ہے۔