• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں اس وقت دو طرح کی ریاستیں ہیں، ایک وہ جہاں سیاہ اور سفید کی تقسیم واضح ہے اور دوسری قسم ان ریاستوں کی ہے جہاں سب کچھ گرے رنگ یعنی نیم قانونی ماحول میں ہوتا ہے۔ کچھ ریاستوں میں یہ نیم قانونی نظام قدرتی طور پر بن جاتا ہے اور کہیں حکمران جان بوجھ کر اس نیم قانونی نظام کو فروغ دیتے ہیں۔Why nations fail ایک شہرہ آفاق کتاب ہے۔ اسی کتاب کے مصنّفین نے ایک نئی کتاب The Narrow Corridor لکھی ہے۔ سیاسی اور معاشی حالات پر بہت اعلیٰ پائے کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک ڈکٹیٹر کا ذکر ہے جس نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے اپنے ملک میں جان بوجھ کرنیم قانونی (گرے) نظام نافذ کیا۔ انتظامیہ کی تنخواہیں کم رکھیں لیکن انہیں کرپشن کی چھوٹ دی، جو سرکاری افسر اس کی حکومت کیلئے خطرہ بنتا اسے کرپشن کے الزام میں پکڑ لیتا۔ مقننہ اور عدلیہ کیلئے قوانین ایسے بناتا کہ گرے نظام قائم رہے، سب کچھ نیم قانونی ماحول میں چلے تاکہ جو سیاستدان، جو جج اس کے لیے مسئلہ بنے اسے قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرانے میں آسانی ہو۔ اسی طرح کا نظام کاروبار، صحافت اور دیگر شعبوں کے لئے وضع کیا۔

چند روز پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلاک میں ایک دلخراش واقعہ ہوا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ ایک متوازن، نفیس اور محنتی جج ہیں۔ قلیل مدت میں اہم قانونی نکات پر ان کے سینکڑوں فیصلے قانونی جریدوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق، آزادیٔ رائے اور سول سوسائٹی کے تحفظ کیلئے انہوں نے قابلِ تحسین فیصلے کیے ہیں۔ لاپتہ افراد کے معاملے میں ان کے تاریخی اور دلیرانہ فیصلے اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمیشہ ریاستی اداروں کو بھی اپنے فیصلوں کے ذریعے مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کوئی انسان غلطیوں سے مبرا نہیں، ان کے کچھ فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ میں نے ان کا جو پروفائل بیان کیا ہے، سیاہ و سفید میں تقسیم معاشروں میں اس طرح کے لوگ ہیرو قرار پاتے ہیں لیکن گرے یعنی نیم قانونی نظام میں اس طرح کے لوگوں کے ساتھ افسوسناک واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ ان کے چیمبر اور ان کی ذات پر جو حملہ ہوا، اس سانحے کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔

کچھ حقائق میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔ اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں ایک فاش غلطی یہ تھی کہ اس میں ڈسٹرکٹ کورٹس کی جگہ ہی نہیں تھی اور نہ ہی حکومت اور سی ڈی اے کو چالیس پینتالیس سال میں توفیق ہوئی۔ جب سے جسٹس اطہر من اللہ چیف جسٹس بنے تب سے وفاقی حکومت اور سی ڈی اے کو ڈسٹرکٹ کورٹس بنانے کیلئے ہدایات دے رہے ہیں لیکن اڑھائی سال گزر گئے، وفاقی حکومت اور بیوروکریسی فائل فائل کھیل رہی ہیں۔ نتیجتاً، ضلع کچہری میں ایک انتہائی چھوٹی جگہ میں کرائے کی عمارتوں ، دکانوں، انتہائی خستہ حال بلڈنگز میں عارضی طور پر ساٹھ سے زیادہ جج بیٹھتے ہیں۔ انہی عدالتی عمارتوں کے کرائے کی عدم ادائیگی کے تنازعے انہی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ وکلا کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے، ہزاروں سائل اسی چھوٹی سی جگہ پر روز آتے ہیں۔ صبح یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ گٹر کا پانی، گندگی، بارش کا پانی، بجلی کی ننگی تاریں، ٹرانسفارمر، ایک غیر انسانی ماحول ہوتا ہے۔ سی ڈی اے کی مجرمانہ غفلت ماضی میں بھی جاری رہی اور اب بھی جاری ہے۔ جو ہزاروں وکیل کچہری آتے اور ہزاروں کیسوں کی پیروی کرتے ہیں انہیں روزانہ کی بنیادپر دسیوں ہزارفائلیں اور کتابیں درکار ہوتی ہیں، نہ ان کے بیٹھنے کی کوئی جگہ سی ڈی اے نے بنائی، نہ انکی فائلیں اور کتابیں حفاظت سے رکھنے کی کوئی جگہ، نہ باررومز کی جگہ، نہ کامن رومز کی جگہ، نہ باتھ روم کی جگہ۔ ابتدا کرسی میز سے ہوئی جہاں وکیل اپنی فائلیں کتابیں رکھ لیتے لیکن موسم کی سختی رش بڑھنے کی وجہ سے قدرتی طور پرعارضی چیمبر وجود میں آئے ،اس وقت سے موجود ہیںجب سے کچہری بنی ہے۔ نئی عدالتیں بننے اور ہزاروں نئے وکلا آنے کی وجہ سے زیادہ جگہ کی ضرورت ہے سوبار ایسوسی ایشن وکلا کے درمیان عارضی چیمبرز کے معاملے کو غیر رسمی طور پرریگولیٹ کرتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہم وفاقی اداروں، اسلام آباد انتظامیہ، پولیس اور سی ڈی اے کی ناکامیوں پر ہائیکورٹ میں انکی باز پرس ہوتی ہے۔ اس نیم قانونی نظام میں چیف جسٹس قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں جو کچھ حلقوں کو ناگوار گزرتا ہے۔ ہوا یوں کہ دو نئے چیمبرز کی تعمیر پر سیشن جج نے سی ڈی اےکو خط لکھا۔ عدلیہ کا کندھا میسر آیا تو انتظامیہ اور سی ڈی اے نے رات کے اندھیرے میں وکلا کے درجنوں چیمبر گرا دیئے، صبح جب وکیل آئے تو افواہیں پھیلائی گئیں کہ چیف جسٹس نے یہ چیمبرز خود کھڑے ہو کر گروائے ہیں۔ وکیلوں میں بدقسمتی سے انتہا پسند اور تشدد پسند عناصر بھی موجود ہیں جن کی گرفت بہت ضروری ہے۔ مشتعل وکلا ہائیکورٹ کیلئے روانہ ہوئے تو اسلام آباد انتظامیہ نے ہائیکورٹ کی سیکورٹی بڑھانے کیلئے کوئی انتظامات نہ کئے۔ پھر ہائیکورٹ میں دلخراش واقعہ ہوا جس کا نہ کوئی جوازپیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی دفاع۔ لیکن جلتی پر تیل کا کام دہشتگردی کی دفعات ڈال کر کیا گیا اور اب یہ شکایت وکیلوں میں گردش کر رہی ہے کہ بے گناہ وکلا کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ وکلا کی ایک بڑی تعداد ان چند وکیلوں پر بہت برہم ہے جو اس افسوسناک واقعے میں شامل ہوئے۔ اس وقت ماحول یہ بن رہا ہے کہ وکلا اور جج آمنے سامنے کھڑے ہیں، وکیل اور وکیل آپس میں لڑ رہے ہیں اور عدلیہ کا ادارہ کمزور تر ہو رہا ہے۔ اور مجھےکتاب The Narrow Corridor یاد آ رہی ہے۔

تازہ ترین