• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی فصل کی گندم 18سو روپے من خریدنے کا اصولی فیصلہ

اسلام آباد (حنیف خالد) وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور میں گندم کی سرکاری خریداری کے ریٹ ساڑھے 16سو سے بڑھا کر کم و بیش 18سو روپے من کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جس کا باضابطہ اعلان آئندہ ہفتے کابینہ کی منظوری سے کر دیا جائیگا۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے سابق چیئرمین افتخار احمد مٹو کے مطابق جہاں تک سندھ کی طرف سے 2ہزار روپے من قیمت خرید کا اعلان ہوا ہے فلور ملز مالکان اسے مرکز اور پنجاب کیخلاف سندھ حکومت کی طرف سے ٹف ٹائم دیئے جانے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کاروباری حلقوں کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر نے 225سے اڑھائی سو ڈالر فی ٹن اپنے حصے کی گندم کی درآمد کے آرڈرز دیئے‘ اور اوپن مارکیٹ میں گندم کی قلت اور بحران پیدا نہیں ہونے دیا لیکن ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کے حکم کے باوجود پچیس لاکھ ٹن گندم کی درآمد اڑھائی سو ڈالر فی ٹن کے وقت نہیں کی بلکہ 280ڈالر فی ٹن کے ریٹ پر کم و بیش 20لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے آرڈر دیئے جو آئندہ ماہ تک کراچی پہنچے گی۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر نے بھی پاکستان میں گندم کی قیمت 22سو سے 23سو روپے فی من گندم کی قیمت چلے جانے پر دو جہازوں میں ایک لاکھ بیس ہزار ٹن گندم منگوائی ہے جو مارچ کے پہلے ہفتے میں پہنچنے والی ہے۔ شہروں کے علاوہ ملک کی ساٹھ فیصد دیہی آبادی بھی آٹے کی قلت کا شکار ہونا شروع ہو گئی ہے۔ شہروں میں 860روپے میں بیس کلو کم و بیش غیر معیاری آٹا عام آدمی خریدنے پر مجبور ہے جس میں گلوٹن‘ پروٹین اور کاربو ہائیڈریٹس کم ہیں۔ پچاس فیصد درآمدی اور پچاس فیصد ملکی گندم سے بنے آٹے کی روٹی تندور میں ٹوٹ کر گر جاتی ہے جبکہ گھروں میں توے پر پکتے ہی سوکھ جاتی ہے۔ وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کو 25ہزار ٹن یومیہ سرکاری گندم (دیسی/درآمدی) دینے کی ہدایت کر رکھی ہے مگر محکمہ خوراک پنجاب 24ہزار ٹن یومیہ گندم دینے پر اکتفا کر رہا ہے حتیٰ کہ ہفتہ وار چھٹی اتوار اور پبلک ہالیڈے جیسا کہ یوم یکجہتی کشمیر اور دوسری سرکاری تعطیلات کا کوٹہ جاری نہیں کر رہا حالانکہ سندھ حکومت کا محکمہ خوراک اور خیبر پختونخوا کا محکمہ خوراک باقی چھ دنوں کی طرح ان دنوں میں بھی فلور ملز مالکان کو کوٹہ جاری کرتا ہے۔ وفاقی حکومت نے سوا دو سو ڈالر فی ٹن یوکرائنی گندم جون 2020ء میں تاخیر کی‘ ٹی سی پی کو وزیراعظم نے 25لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی ہدایت کی‘ ٹی سی پی نے اسکے ٹینڈر منگوائے مگر ای سی سی کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی رائے تھی کہ پاکستان کے پاس پچیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا زرمبادلہ ہی نہیں ہے‘ پرائیویٹ سیکٹر یہ گندم درآمد کر سکتا ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کے سابق چیئرمین افتخار احمد مٹو نے جنگ کو بتایا کہ سوا دو سو ڈالر فی ٹن 22لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کے ٹینڈر منسوخ کرنا غلط تھا کیونکہ مارچ کے پہلے ہفتے میں پرائیویٹ سیکٹر کے 120ہزار ٹن درآمدی گندم لیکر جو جہاز آ رہے ہیں وہ 310ڈالر فی ٹن کے حساب سے خریدے گئے ہیں‘ اس طرح 22لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے ٹینڈر مسترد کر کے 18کروڑ 70لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ ضائع کرنے والوں کیخلاف ایکشن لیا جانا چاہئے۔ سابقہ حکومت کے دور میں پانچ سال تک دیسی گندم کا معیاری آٹا 7سو روپے میں بیس کلو ملتا رہا۔ پانچ سالوں میں چینی بھی اوسطاً 52روپے کلو ملتی رہی۔ گھی اور دوسری اشیائے خوردنی جن میں دالیں‘ سبزیاں‘ پھل‘ انڈے کے علاوہ مرغیاں تک معقول قیمت پر دستیاب رہیں۔ ایک معروف برانڈ جو پہلے غیرملکی کمپنی کا تھا اور اب اس نے ایک پاکستانی نجی بزنس مین کو بیچ دیا ہے اسکی قیمت جو پہلے ساڑھے بارہ سو کا پانچ کلو ملتا تھا اب وہ نئی پیکنگ میں ملا کریگا او اسکی قیمت 14سو 80روپے کا کر دیا ہے۔ (ن) لیگی دور میں تو یہ الزام لگتا رہا کہ انڈے مرغے کی قیمت حمزہ شہباز اور پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مرحوم چیئرمین ڈاکٹر محمد اسلم باہمی مشاورت سے نکالا کرتے تھے مگر انکے پانچ سالہ دور میں ڈیڑھ سو روپے کلو سے زیادہ زندہ مرغی کا ریٹ نہیں ہوا تھا اور انڈے بھی زیادہ سے زیادہ 132روپے درجن تک فروخت ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے دور میں انڈے 200روپے درجن تک فروخت ہوتے رہے۔ افتخار احمد مٹو کے مطابق بعض فلور ملز مالکان بھی جنہوں نے زیادہ گندم خرید لی تھی وہ بھی دوسری فلور ملوں کو گندم فروخت کر رہے ہیں لیکن گندم مافیا جس کی اپنی فلور ملیں نہیں ہیں اور صرف ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں وہ 800روپے من تک ناجائز منافع کما کر 22سو سے 23سو روپے من تک گندم کھلے بندوں اوپن مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اربن کوٹہ کی طرح کم از کم پانچ ہزار ٹن رورل کوٹہ دیہی آبادی کیلئے یومیہ جاری کیا جائے کیونکہ دیہات میں کسانوں نے اپنی رکھی ہوئی گندم بیج کے طور پر استعمال کر دی ہے یا اسے نو دس مہینوں میں کھا لی ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے کہا کہ آئندہ ماہ آٹے کا سنگین بحران جنم لینے والا ہے کیونکہ پنجاب نے ساڑھے 16سو روپے گندم کسان سے خریدنے کا کہا ہے جبکہ سندھ حکومت کاشتکار سے 2ہزار روپے من گندم خریدنے کا اعلان کر چکی ہے۔ اس طرح پنجاب کی گندم‘ مافیا کے لوگ ساڑھے 16سو روپے من خرید کر سندھ کی فلور ملوں کو 2ہزار روپے من تک فروخت کر کے کروڑوں روپے منافع کمائیں گے۔افتخار مٹو نے بتایا کہ گزشتہ فصل سے پنجاب میں 41لاکھ ٹن گندم کسانوں سے خریدی جبکہ سندھ نے صرف 10لاکھ ٹن گندم کاشتکار سے سرکاری ریٹ پر حاصل کی۔

تازہ ترین