• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہِ ستمبر کے آخری عشرے کی ایک تاریک اور قدرے سرد رات کا پہلا پہر رخصت ہوا چاہتا ہے۔ مکّے کی فضائوں میں پُراسرار سی خاموشی کا راج ہے۔ ہر سُو سکوت کا عالم ہے۔ ایسے میں ’’مسفلہ‘‘ نامی محلّے کے ایک مکان کی پچھلی جانب کھڑکی کُھلنے کی مدھم سی آواز سُنائی دی اور پھر اللہ کے دو جلیل القدر بندے نہایت احتیاط کے ساتھ اَن جان راہوں پر چل پڑے۔ گھر کے دروازے سے لگی دونوں صاحب زادیاں اپنی آنکھوں میں تیرتے اشکوں کو چھلکنے سے روکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھیں کہ اچانک نابینا دادے کی غم گین اور مدھم آواز بچّوں کی سماعتوں سے ٹکرائی’’ابوبکرؓ نے ہمیں جانی اور مالی دونوں قسم کا دُکھ دیا ہے۔ 

بچّو! تمہارا باپ خود تو گیا، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ تمام جمع پونجی بھی ساتھ لے گیا ۔‘‘ حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ ’’میرے دادا اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ چناں چہ مَیں نے جلدی سے کہا ’’داداجان! ابّا جان تو ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ پھر مَیں تیزی سے آگے بڑھی، ایک کپڑے میں چھے پتھر باندھے اور اُنہیں اُس طاق میں رکھ آئی، جہاں والدِ محترم اپنا مال رکھتے تھے۔ پھر دادا کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گئی، دادا جان نے ٹٹول کر پوٹلی دیکھی اور خوش ہوتے ہوئے بولے ’’ارے تمہارا باپ تو تمہارے لیے بہت کچھ چھوڑ کر گیا ہے۔‘‘ حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ اُس وقت گھر میں ہمارے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ چھے ہزار درہم جو گھر میں موجود تھے، وہ والد صاحب ساتھ لے گئے تھے، لیکن مجھے اُس وقت اپنے ضعیف دادا کی تسکین مقصود تھی‘‘(مسند احمد)۔

نام و نسب

آپ کا نام اسماء ؓ اور لقب ’’ذات النطاقین‘‘ ہے۔اُمّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ’’ حضورﷺ کے ہجرت پر روانہ ہونے کے وقت ہم نے جلدی جلدی کچھ کھانا بنا کر ایک تھیلے میں رکھ دیا، لیکن اُسے باندھنے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں تھی، چناں چہ بڑی بہن، اسماءؓ نے اپنے نطاق کے(کمر سے باندھنے والا کپڑا) دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑے سے تھیلے کا منہ باندھ دیا۔ یہی وہ اعزاز تھا، جس کی بنا پر وہ’’ذات النطاقین‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہیں (صحیح بخاری، حدیث 3905)۔آپؓ کے والد، سیّدنا ابوبکر صدّیقؓ اور والدہ، قیلہ بنتِ عبدالعزیٰ ہیں۔ 

اُمّ المومنین، سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓسوتیلی بہن، جب کہ حضرت عبداللہؓ بن ابوبکرؓ حقیقی بھائی ہیں۔ ہجرتِ مدینہ سے 27سال قبل مکّے میں پیدا ہوئیں۔ نانا، عبدالعزیٰ قریش کے نام وَر سردار اور دادا، ابوقحافہؓ مکّے کے معزّزین میں شمار ہوتے تھے۔ والد، سیّدنا ابوبکرؓ حجاز کے معروف تاجر تھے۔

قبولِ اسلام

حضرت اسماءؓ کا شمار سابقون الاوّلون میں ہوتا ہے۔یعنی وہ لوگ، جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ابنِ اسحاقؒ لکھتے ہیں کہ اُن سے پہلے صرف سترہ نفوسِ قدسی مخفی طور پر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔

نکاح، اولاد

حضرت صدّیقِ اکبرؓ نے اُن کا نکاح نبی کریمﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ کے صاحب زادے اور حواریٔ رسولﷺ، حضرت زبیربن العوامؓ سے کیا، جو’’ عشرہ مبشّرہ‘‘ میں سے تھے۔ حضرت اسماءؓ وہ خوش نصیب صحابیہ ہیں، جن کے والد، دادا، بہن، بھائی، شوہر اور اولاد کو نبی کریمﷺ کے صحابی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ اپنے والدِ محترم کی طرح جرأت و استقامت، عزیمت و شجاعت، بے خوفی و بہادری کی پیکر اور حق و صداقت کی عَلم بردار تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اُنہیں 5 سعادت مند بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی تھیں۔ بیٹوں کے نام عبداللہ، عروہ، منذر، مہاجر اور عاصم ہیں۔ بیٹیوں کے نام خدیجۃ الکبریٰ، اُمّ الحسن اور عائشہ ہیں۔

ابوجہل کا تھپڑ

ہجرت کی رات گزر گئی۔ جب سحر ہوئی، تو سردارانِ قریش نے حضورﷺ کو بستر پر نہ پایا، تو غصّے سے پاگل ہوگئے۔ پہلے حضرت علی المرتضیؓ کو زدوکوب کیا، پھر حضرت ابو بکرؓ کے گھر جا پہنچے۔ دستک ہوئی، تو حضرت اسماءؓ نے دروازہ کھولا۔ ابو جہل نے غضب ناک انداز میں پوچھا ’’تیرا باپ کہاں ہے؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘ یہ سُننا تھا کہ اُس بدبخت نے حضرت اسماءؓ کے رخسارِ مبارک پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ اُن کے کان کی بالی دُور جاگری (سیرت ابنِ اسحاق، صفحہ 344)۔

مدینے میں پہلے مسلمان بچّے کی پیدائش

حضرت اسماءؓ بیان کرتی ہیں کہ’’ جب مَیں مدینہ منوّرہ پہنچی اور میرے ہاں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی ولادت ہوئی، تو مَیں اُنہیں لے کر رسول اللہﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور اُنھیں آپؐ کی گود میں رکھ دیا۔ نبی کریمﷺ نے ایک کھجور طلب فرمائی اور چبا کر عبداللہؓ کے منہ میں رکھی۔ چناں چہ سب سے پہلے جو چیز عبداللہؓ کے پیٹ میں گئی، وہ آپؐ کا لعابِ مبارک تھا۔ پھر آپؐ نے اُن کے لیے دُعا فرمائی۔‘‘ وہ ہجرت کے بعد مدینے میں پیدا ہونے والے پہلے مسلمان بچّے تھے(صحیح بخاری حدیث 3909)۔

سادگی و قناعت، خدمت و تابع داری

حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ’’ جب میری زبیرؓ سے شادی ہوئی، تو وہ بہت تنگ دست اور مفلس تھے۔ اُن کی کُل متاع ایک گھوڑے اور ایک اونٹ پر مشتمل تھی، چناں چہ گھر کے سارے کام کرنے کے ساتھ، گھوڑے اور اونٹ کا چارہ، پانی لانے تک کے کام مجھے ہی کرنے پڑتے۔ حضورﷺ نے زبیرؓ کو تھوڑی سی زمین دی تھی، جو گھر سے دو میل کے فاصلے پر تھی، مَیں وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں سَر پر رکھ کر لاتی اور اُنہیں کچل کر گھوڑے کو ڈالتی۔ تاہم، بعدازاں میرے والد نے ایک غلام ہمارے پاس بھیج دیا، جو گھوڑے کے کاموں سمیت باہر کے سب کام کرنے لگا‘‘ (صحیح بخاری حدیث 5224)۔

حضرت زبیرؓ سے علیٰحدگی

حضرت اسماء ؓاور حضرت زبیرؓ نے طویل عرصہ خوش و خرّم زندگی گزاری۔تاہم، حضرت زبیرؓ کے مزاج میں کچھ تیزی تھی، لیکن حضرت اسماءؓ صبر و تحمّل کے ساتھ درگزر کرتی رہیں، تاہم ایک دن گھریلو تنازع اِتنا بڑھا کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ ازدواجی رشتہ منقطع ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ اُنہیں عزّت و احترام سے یاد کرتیں اور اُن کی خوبیوں کا ذکر کرتیں۔ طلاق کے بعد وہ اپنے جلیل القدر اور سعادت مند صاحب زادے، حضرت عبداللہؓ کے ساتھ رہنے لگیں۔

یزید کی خلافت سے انکار

حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت اسماءؓ کے لختِ جگر، حضورﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ کے پوتے، خلیفۂ اوّل حضرت صدّیقِ اکبرؓ کے نواسے اور جنہیں گُھٹی میں رسول اللہﷺ کا لعابِ مبارک ملا ہو، اُن کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک فاسق و فاجر حکم راں کی بادشاہت تسلیم کرلیتے؟ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے ایسا ہی کیا اور یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ ماننے سے انکار کردیا۔ ہر طرح کے لالچ، خوشامد اور دھونس، دھمکی کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور مکّے میں پناہ گزیں ہوگئے، جہاں بہت سے لوگوں نے اُنہیں اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا۔

خانۂ کعبہ پر سنگ باری

یزید نے مسلم بن عقبہ کو عبداللہ بن زبیرؓ کے قتل کے احکامات دیئے۔مسلم بن عقبہ مدینے میں لشکر کشی کرکے مکّے کی جانب بڑھا، لیکن ابواء کے مقام پر فوت ہوگیا۔ حصین بن نمیر نے فوج کی قیادت سنبھالی اور مکّے کا محاصرہ کرلیا۔ چوں کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ بیتُ اللہ میں پناہ گزیں تھے، تو اُس نے کوہِ قبیس پر منجنیقیں نصب کرکے خانۂ کعبہ پر سنگ باری شروع کردی۔ محاصرے کو تین ماہ ہوچُکے تھے کہ ایک دن یزید کے مرنے کی خبر آئی، جس پر محاصرہ ختم کردیا گیا۔عبدالملک بن مروان مسندِ حکومت پر بیٹھا ،تو اُس نے اپنے سفّاک ترین جرنیل، حجاج بن یوسف ثقفی کو ایک بڑی فوج دے کر مکّے کی جانب روانہ کیا۔ 

حجاج نے بھی مکّہ پہنچتے ہی بیتُ اللہ پر شدید سنگ باری شروع کردی۔ عبداللہ بن زبیرؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی بہادری سے مقابلہ کرتے رہے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ جاں نثار ساتھی شہید ہوتے رہے اور پھر وہ وقت آگیا، جب چند رفقا ہی اُن کے ساتھ رہ گئے۔ ابنِ زبیرؓ کو یقین ہوگیا کہ حجاج کے فوجی کسی بھی وقت مکّے پر قبضہ کرسکتے ہیں، چناں چہ مشورے کے لیے والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔پُرعزم اور باہمّت بوڑھی ماں نے ایک نظر بیٹے کے چہرے پر ڈالی اور فرمایا’’ اے میرے لختِ جگر! موت کے خوف سے غلامی کی ذلّت قبول کرنا جرأت مند مومن کا شیوہ نہیں۔ 

حق و صداقت کی راہ میں لقمۂ شمشیر بن جانا، اللہ کے باغیوں کی اطاعت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ اگر تم حق پر ہو، تو لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوجائو اور اگر یہ سب دنیا کے لیے کر رہے تھے، تو تم نے اپنی اور اپنے ساتھیوں کی عاقبت خراب کرلی۔‘‘ابنِ زبیرؓ نے کہا’’ امّاں جان! مجھے یہ ڈر ہے کہ یہ لوگ میری لاش کا مثلہ کریں گے، جس سے آپ کو تکلیف ہوگی۔‘‘ بہادر ماں نے جواب دیا’’ بیٹا! جب بکری ذبح ہوجاتی ہے، تو پھر اُسے اِس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اُس کی کھال کھینچی جائے یا گوشت کا قیمہ بنادیا جائے۔ میری تمنّا ہے کہ تم راہِ حق میں شہید ہو جائو، تو مَیں صبر کرلوں گی اور اگر کام یاب ہوگئے، تو یہ کام یابی میری خوشی کا باعث ہوگی۔‘‘

شہادت ہے مطلوب و مقصود ِمومن

پُر عزم ماں کے صائب مشورے نے ابنِ زبیر ؓکے جذبۂ جہاد کو مزید اُبھار دیا۔بہادر ماں نے مقتل پر بھیجنے سے پہلے بیٹے کو گلے لگایا، تو زرہ کی کڑیاں چُبھیں، پوچھا’’ بیٹا! یہ زرہ کیوں پہنی ہے؟‘‘ کہا’’ صرف اطمینان کے لیے۔‘‘ حضرت اسماءؓ نے فرمایا’’ اے نورِ نظر! شہادت کے آرزو مند دنیاوی اطمینان سے بے نیاز ہوتے ہیں۔‘‘ اِس پر سعادت مند بیٹے نے زرہ اُتار پھینکی۔ آستینیں اوپر چڑھائیں، برہنہ شمشیر ہاتھ میں لی، ماں کا ماتھا چوما اور مُٹّھی بھر ساتھیوں کے ساتھ مخالف فوج پر ٹوٹ پڑے۔ 

کسی میں اِتنی ہمّت نہ تھی کہ اُن کے بڑھتے قدموں کو روک سکے اور کچھ ہی دیر میں درجنوں فوجی خون میں نہا گئے۔ تاہم، ایک ایک کرکے اُن کے بھی تمام ساتھی جامِ شہادت نوش کر گئے۔ اب ابنِ زبیرؓ تنہا تھے اور اُن پر چاروں طرف سے پتھروں، تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ یوں جلد ہی وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ سَر قلم کرکے حجاج کے سامنے پیش کیا گیا اور جسدِ خاکی بیتُ اللہ کے پرنالے پر لٹکا دیا گیا۔( ایک روایت کے مطابق حجون کے بازار میں لٹکایا گیا۔)

لختِ جگر کو تختۂ دار پر مبارک باد

جب تین دن گزر گئے، تو ماں، بیٹے کے دیدار کے لیے آئیں۔ شہیدِ اسلام کی لاش اُلٹی لٹکی ہوئی تھی۔ بوڑھی ماں نے بیٹے کو شہادت کی مبارک باد دی اور پھر وہ ایمان افروز جملہ کہا ،جو تاریخ میں اَمر ہوگیا۔فرمایا ’’کیا اِس سوار کے گھوڑے سے اُترنے کا وقت ابھی نہیں آیا؟‘‘اہل ِسیر لکھتے ہیں کہ حجّاج بن یوسف نے حضرت اسماءؓ کو بلوایا، لیکن اُنہوں نے ملنے سے انکار کردیا۔ 

آخر حجّاج خود حاضر ہوا اور بولا’’ دیکھو! مَیں نے دشمنِ خدا کے ساتھ کیا سلوک کیا۔‘‘ حضرت اسماءؓ نے جواب دیا’’ تُو نے اُس کی دنیا بگاڑی، اُس نے تیری عاقبت خراب کردی، تُو میرے بیٹے کو طنزاً’’ ذات النطاقین‘‘ کا بیٹا کہتا تھا، ہاں! مجھے اپنے اِس اعزاز پر فخر ہے، لیکن مَیں نے نبی کریمﷺ سے سُنا ہے کہ بنو ثقیف سے ایک کذّاب اور ایک ظالم پیدا ہوگا۔ کذّاب مختار ثقفی کو مَیں دیکھ چُکی اور ظالم تُو ہے۔‘‘ حجّاج نے جب یہ حدیث سُنی، تو خاموشی سے واپس ہوگیا۔

حضرت اسماءؓ کا صبر و استقلال

چند دن بعد عبدالملک نے لاش اتروانے کا حکم دیا، تو حجّاج نے لاش اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوا دی۔ حضرت اسماءؓ نے لختِ جگر کی لاش گھر منگوائی، زخموں سے چُور لاش کا جوڑ جوڑ الگ تھا۔ کسی بھی عضو کو غسل کے لیے اُٹھایا جاتا، تو وہ ہاتھ میں آجاتا۔علّامہ شبلی نعمانیؒ نے حضرت اسماءؓ کے صبر و استقلال، جرأتِ ایمانی اور توکّل علی اللہ کو ایک طویل نظم کی صُورت نہایت خُوب صورت خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔

وفات

حضرت اسماءؓ اکثر دُعا کرتی تھیں کہ’’ بارِ الہا! جب تک مَیں عبداللہؓ کی لاش نہ دیکھ لوں، مجھے موت نہ دینا۔چناں چہ عبداللہؓ کی شہادت کے چند دن بعد ہی داعی اَجل کو لبیّک کہا اور جنّت الفردوس کو سدھاریں۔ 

اُن کا انتقال جمادی الاوّل 73ہجری کو ایک سو سال کی عُمر میں ہوا۔ اس عمر میں بھی وہ تن درست و توانا تھیں۔ تاہم، آخر عُمر میں بصارت سے محروم ہوگئی تھیں۔ اُن سے 56 احادیث مروی ہیں۔

تازہ ترین