• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ میرا ذاتی تجربہ اور احساس ہے، ضروری نہیں کہ آپ کو مجھ سے اتفاق ہو۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ روحانی کتاب پہ کالم لکھنا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ روحانی کتاب مصنف کی قلبی و ذہنی وارداتوں کا بیان ہوتی ہے اور کسی فقیر کی قلبی کیفیت میں حصہ دار بننا مجھ جیسے دنیادار اور گناہگار کو نہ زیب دیتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ میں نہ ان کے تخیل تک رسائی رکھتا ہوں اور نہ ہی ان کے تصورات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہوں لیکن پھر بھی ان کے پیغام کو پھیلانا صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں۔ صدقہ جاریہ ان معنوں میں کہ اگر ہزاروں قارئین میں سے چند ایک بھی فقیر کی تعلیمات کو سینے سے لگا لیں، دل میں بٹھا لیں اور اپنی سوچ اور کردار کو بدل لیں تو یہ نہ صرف کار ثواب ہے بلکہ صدقہ جاریہ بھی ہے کیونکہ چراغ سے چراغ جلتا ہے اور پھر روشنی پھیلتی چلی جاتی ہے۔
کہے فقیر اور فقیر رنگ کے بعد فقیر نگری محترم جناب سرفراز شاہ صاحب کی تیسری کتاب ہے جو نہ صرف روحانیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے اور ہم جیسے دنیا داروں کے رویوں اور تضادات کی اصلاح کرتی ہے بلکہ روحانیت کی راہ بھی دکھاتی ہے اور قرب الٰہی کے حصول کے لئے بھی راہنمائی کرتی ہے۔ قرب الٰہی تو خیر دور کی منزل ہے اور لوگوں کی اکثریت یہ راستہ بھول چکی ہے، یہ آرزو بھی کھو چکی ہے لیکن یہ کہ ہماری عادات، روزمرہ کی باتیں، رویے اور سوچ ہمیں کس طرح رضائے الٰہی سے دور کردیتی ہیں اور تضادات میں پھنسا دیتی ہیں ان پہلوؤں پر محترم شاہ صاحب کی یہ کتاب تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔
میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ یہ صرف فقیر کا مقام ہے لیکن یہ کتاب پڑھتے ہوئے بار بار احساس ہوتا ہے کہ فقیر لوگوں کی سوچ اور رویوں کی اصلاح چاہتا ہے اور لوگوں کو فقر کے رنگ میں رنگ دینے کی آرزو رکھتا ہے۔ فقر سکون ہی سکون، قناعت ہی قناعت، روشنی ہی روشنی، قلبی مسرت اور ذہنی اطمینان ہے کیونکہ اس کی اولین شرط دل کی پاکیزگی ہے یعنی قلب کو سفلی جذبات سے پاک کرنا ہے کیونکہ بقول محترم سرفراز شاہ صاحب ”جب کسی شخص کے لئے آپ کے دل کے اندر کینہ، بغض، کدورت، نفرت، حسد، دشمنی، مخالفت یا رنجش رہنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ وہاں سے نکل جاتا ہے اور علم بھی وہاں نہیں رہتا اسی لیے ضروری ہے کہ اپنے دل کو آئینے کی مانند چمکا کر رکھا جائے “ یہاں علم سے مراد روحانی علم ہے نہ کہ وہ علم جو ہم سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے حاصل کرتے ہیں اور پھر ساری زندگی حسد، غصے، نفرت اور کینہ و بغض میں گزار دیتے ہیں۔ انسانی جسم اور زندگی میں مرکزی حیثیت قلب کو حاصل ہے جس کے مرکز میں روح کا مسکن ہے اس لئے اگر دل میں سفلی جذبات اور گھٹیا خیالات کی حکومت ہوگی تو وہاں نور الٰہی نہیں رہے گا، آہستہ آہستہ یاد الٰہی بھی ان اندھیروں میں دب جائے گی اور نفس انسان پر پوری طرح غالب آجائے گا۔نفس کے غالب آنے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ انسان سر سے پاؤں تک دنیاوی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے اور اس کا ہر قدم کسی نہ کسی خواہش کی تکمیل کی جانب اٹھتا ہے۔ خواہشات کا سلسلہ لامتناعی ہوتا ہے، یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔
انسان ایک چیز اور ایک خواہش ”حاصل“ کرلیتا ہے تو اس سے اس کی مزید خواہشوں کی آگ بھڑکتی ہے اور ہوس کا الاؤ مزید تیز ہوجاتا ہے چنانچہ انسان دن بھر اور زندگی بھر خواہشات کا اسیر اور قیدی بن کر دوڑ دھوپ میں مصروف رہتا ہے اور پھر اپنی خواہشات کے حصول کے لئے دوسروں کا حق مارنا، جھوٹ بولنا، خوشامد کرنا، ضمیر فروشی کرنا، دھوکہ دینا وغیرہ وغیرہ کو جائز سمجھنے لگتا ہے کیونکہ اس کا نفس اسے یہی ترغیب دیتا اور یہی بات اس کے ذہن میں بٹھا دیتا ہے۔ یوں انسان اپنے خالق یا اپنے رب کا بندہ بننے کی بجائے نفس کا بندہ بن جاتا ہے۔ اپنے اردگرد نگاہ ڈالیے اور آنکھیں کھول کر دیکھیئے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا میں سارا فساد حرص و ہوس کی وجہ سے ہے، انسان بھی حرص و ہوس کا شکار ہو کر ظلم و ستم کرتے، قتل و غارت جیسے گناہوں کا ارتکاب کرتے، لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے اور طاقتور قومیں اور ممالک بھی حرص و ہوس کا شکار ہو کر دوسری اقوام کو محکوم بناتے اور دوسرے ممالک پر غلبہ حاصل کرتے ہیں۔
اسی لئے عرض کرتا ہوں کہ انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر قوموں ملکوں کی اجتماعی زندگی تک فساد کی جڑ حرص و ہوس ہے۔ رضائے الٰہی، حب الٰہی اور قرب الٰہی کی خواہش انسان کو سب سے پہلے حرص و ہوس سے نجات دلاتی ہے اور اس کے قلب و ذہن میں یہ بات راسخ کر دیتی ہے کہ ہر شے من جانب اللہ ہے، ہر شے کا مالک میرا رب ہے، وہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے دولت دے، جسے چاہے غلبہ دے، جسے چاہے شہرت دے، میں کون ہوتا ہوں اس کے کاموں میں دخل دینے والا اور اس کے انعامات پہ حسد، غصے، نفرت اور کینے میں مبتلا ہونے والا ؟ محترم شاہ صاحب اپنی تیسری کتاب فقیر نگری میں فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ہم سب دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ میرا اللہ پر بھروسہ پورا ہے لیکن جب ذرا سے معاملات خراب ہو جائیں تو فوری ردعمل شروع ہو جاتا ہے، ہم کسی صاحب دعا یا ماہر عملیات کے پاس دوڑے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے ہم دن رات رب تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں Enjoy کرتے ہیں لیکن اس کرم نوازی کے دوران ذرا سی تکلیف آجائے تو چیخ و پکار اور واویلا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ تکلیف آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گی۔
جب اس تکلیف کو سہنا ہی ہے تو کیوں نہ خوش دلی سے سہ جاؤں۔ کیوں ناشکرگزار بنوں۔ عزت اور ذلت بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لیڈی ڈیانا کے مرنے پر اکثر لوگوں نے کہا کہ یہ سب کیا ہے ایک خاتون (MORE ORLESS A PLAY GIRL) کہلاتی تھی اس کی آخری رسوم اس قدر شاندار انداز میں ہوئیں۔ تب میں نے (سرفراز شاہ صاحب) عرض کیا جناب یہ رب کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عزت اور ذلت میرے ہاتھ میں ہے۔ میں جسے چاہتا ہوں عزت دیتا ہوں اور جسے چاہتا ہوں ذلت دیتا ہوں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب مادر ملکہ کا انتقال ہوا تو اس کا جنازہ ڈیانا کے جنازے کی شان کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھا… محترم شاہ صاحب کی کتاب تو علم کا سمندر ہے اور ظاہر ہے کہ میں کالم میں اس کا ایک قطرہ بھی بیان نہیں کرسکا لیکن اتنی سی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر انسان اپنے کو یقین دلالے اور خود کو قائل کر لے کہ ہر شے من جانب اللہ ہے، وہی انسانی جسم سے لے کر کائنات کی ہر شے کا مالک ہے، وہی عزت، دولت، عہدے اور شہرت دیتا ہے تو پھر انسان کا قلب یا باطن ہر قسم کے حسد، بغض، نفرت اور کدورت سے پاک ہو جائے گا۔ اگر کسی نے یہ دولت، عہدہ یاشہرت غلط طریقے سے کمائے ہیں تو اس کا معاملہ رب تعالیٰ کے سپرد ہے اور ظاہر ہے کہ وہاں پائی پائی کا حساب ہوگا، ذرا بھر برائی کی سزا بھی ملے گی اور ذرہ بھر نیکی کا اجر بھی ملے گا۔
ایک ہوتا ہے حسد، کینے، بغض، انتقام اور نفرت کے تحت احتساب کرنا اور دوسرا ہوتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے احتساب کرنا۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسی لئے خود رب تعالیٰ نے قتل، زنا، چوری، کذب اور کرپشن یا قومی خزانہ لوٹنے وغیرہ وغیرہ جیسے جرائم کی سزائیں بتائی ہیں اور ان پر عمل درآمد کا حکم دیا ہے۔
اس حوالے سے ہم کبھی کبھی قانون قدرت کو بھی حرکت میں آتے دیکھتے ہیں۔ جہاں تک ہماری انفرادی زندگی کا تعلق ہے ، اگر ہم باطن کی روشنی کی آرزو رکھتے ہیں تو قلب کو پاک و صاف رکھنا پہلی شرط ہے، سب کا بھلا چاہنا اور سب سے بھلا کرنا دوسری شرط ہے، ہر شے کو من جانب اللہ سمجھنا تیسری شرط ہے اور سب سے اہم اور ضروری شرط احکامات الٰہی پر عمل کرنا ہے جس کے بغیر نہ پھل لگتا ہے نہ پھل ملتا ہے۔ اپنی کم علمی کے سبب بات مکمل نہ کرسکا … معذرت!!!
تازہ ترین