ٹیلی ویژن کی معروف پروڈیوسر فہمیدہ نسرین اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ یہ خبر جیسے ہی ہم تک پہنچی، دل نہایت افسردہ ہو گیا، ابھی تو گیت نگار ریحان ؔ اعظمی کی موت سے نہ سنبھلے تھے کہ ایک اور انتقال کی خبر آگئی۔ 2021 کو شروع ہوئے ابھی دو ماہ مکمل نہیں ہوئے کہ پے در پے صدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم تو سالِ گزشتہ میں اس جہانِ فانی سے کُوچ کر جانے والوں کے غم سے نہ سنبھلے تھے کہ ابھی نئے سال میں ایک کے بعد ایک کے جانے کی خبریں مل رہی ہیں۔
پچھلے سال طارق عزیز گئے، اطہر شاہ خاں گئے، بالی وڈ سے رشی کپور، عرفان خان، سروج خان کے مرنے کی اطلاع آئی۔ فلم PKسے شہرت حاصل کرنے والے سرفراز یعنی سوشانت سنگھ کی موت ہوئی، سنجے دت میں پھیپڑوں کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔
ابھی 2021 شروع ہوا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں خدانخواستہ یہ سال بھی فن کاروں پر بھاری نہ ہو۔ کہیں سے کوئی خوشی کی خبر نہیں مل رہی۔ صبح اٹھ کے فون چیک کرو تو روزانہ کسی نہ کسی کے فوت ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ فہمیدہ نسرین سے ہمارا دیرینہ تعلق تھا۔ ہماری فیملی کا ان کی فیملی سے پُرانا واسطہ اور ملنا جلنا تھا۔ ٹیلی ویژن سے ان کی وابستگی اور شہرت اپنی جگہ لیکن فہمیدہ نسرین کی اپنی ذاتی شناخت بھی بہت مضبوط تھی۔ ان کا ادب سے لگائو اور لکھنے پڑھنے سے شغف انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔
فہمیدہ نسرین نے ٹیلی ویژن پر بہت پروگرام کیے، بچوں کے پروگرام، خواتین کے پروگرام، ڈرامے وغیرہ غرض یہ کہ جو کام کیا اپنا لوہا منوایا۔ فہمیدہ نسرین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے کوئٹہ مرکز سے اپنا پروگرام پیش کیا، جس سے اس سینٹر کی شہرت ہوئی اور کوئٹہ سینٹر کو ڈراموں کے حوالوں سے نئی پہچان ملی۔ـ’’ کوشش ‘‘ڈراما وہ یاد گار شاہکار ہے، جس نے سب کے دل جیت لیے۔ برسوں قبل ٹی وی پروڈیوسرز کا دوسرے مراکز پہ تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔
تکنیکی اسٹاف کا بھی تبادلہ ہوتا تھا۔ فہمیدہ نسرین کا جب کوئٹہ ٹرانسفر ہوا تو اندازہ نہیں تھا کہ یہ باصلاحیت خاتون وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیں گی۔ ’’ کوشش ‘‘ایک ہلکا پھلکا ڈراما تھا، جس میں ذوالقرنین حیدر نے بہت عمدہ اداکاری کی تھی، ان کا ایک ڈائیلاگ تو بہت مشہور ہوا تھا، وہ یوں تھا ’’الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا‘‘۔ فہمہدہ نسرین کی اس کام یاب پیش کش کے بعد کوئٹہ مرکز سے بڑے بڑے ڈرامے پیش ہوئے مثلاً ’چھائوں‘،’پالے شاہ‘،’بارش کے بعد‘، ’چاکر اعظم‘، ’دھواں‘، ’شہرزاد‘ اور ’واپسی‘ وغیرہ۔ مگر یہ کہنا عین مناسب ہے کہ کامیابیوں کے اس سلسلے کی ابتدا فہمیدہ نسرین کے ڈرامے ’’کوشش‘‘ سے ہوئی۔
فہمیدہ نسرین کے ساتھ ہم نے رمضان المبار ک کی خصوصی نشریات کیں۔ سحری کی لائیو ٹرانسمیشن میں ہماری پروڈیوسر فہمیدہ تھیں۔ کیسی خُوب صورت بات ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ برسہا برس قبل ہماری والدہ نے بھی ان کے پروگرام میں میزبانی کی تھی۔ قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کتنا ان کا احترام کرتے ہوں گے۔ باوقار، بااخلاق اور نرم مزاج فہمیدہ نسرین سب کے لیے قابلِ صد احترام تھیں۔
شائستہ اور نرم خُو فہمیدہ نے بہ طور ٹیلی ویژن پروڈیوسر خود کو بلند مقام پر پہنچانے کے لیے بہت محنت کی اور وہ اس میں یقیناً کام یاب بھی رہیں۔ پی ٹی وی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک دن ان کا فون آیا، انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہما مارننگ شو کی کمپیئرنگ کرو گی؟ اُس وقت وہ نیشنل اسٹیڈیم کے عقب میں واقع گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ ہم نے ہامی بھر لی اور وقت مقررہ پر ان کو گھر سے پِک کر نے پہنچے۔ ہمیں ایک نجی چینل کے دفتر ان کے ساتھ میٹنگ میں جانا تھا۔ اگرچہ دفتر دور نہیں تھا، ہم ذرا احتیاط سے گاڑی چلاتے ہیں۔ انہوں نے ہماری ڈرائیونگ پر یوں تبصرہ کیا کہ ہما تم تو خواہ مخواہ میں اتنا ڈر ڈر کے ڈرائیو کرتی ہو، سویرا وغیرہ تو ایسی زبردست ڈرائیونگ کرتی ہیں کہ کیا کہنے۔
وہ بالکل نہیں گھبراتیں، مزے سے گاڑی چلاتی ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ نجی چینل کے دفتر گئیں، میٹنگ ہوئی اور اس سے قبل ہم کوئی فیصلہ کرتے، ہمیں جیو سے مارننگ شو کی آفر آگئی اور ہم نے جیو ٹی وی پر میزبانی شروع کر دی۔ فہمیدہ نسرین نے پی ٹی وی چھوڑا تو ان سے ملاقاتیں کم ہو گئیں۔ تاہم ان کے بچوں کی تقریبات اور دعوتِ حلیم میں ہم ضرور شرکت کرتے۔ دعوت حلیم میں فن کاروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ وہ ایک کونے میں میز پر بیٹھ کےپان لگا رہی ہوتیں اور سب کو حلیم کے بعد پان بھی کھلاتیں۔
کیسی شفیق اور عمدہ خاتون تھیں۔ ایک دن ان کا فون آیا، ہمیں یاد کر رہی تھیں، ہم ان سے ملنے ان کے گھر گئے۔ وہ بیمار تھیں اور دُکھی بھی۔ ہم اس دن بہت دیر ان کے پاس بیٹھے رہے۔ انہوں نے ہم سے ڈھیروں باتیں کیں۔ اس وقت ان کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی فہمیدہ نسرین ہیں، جنہیں ہم ہمیشہ جانتے ہیں۔ وہ کافی نحیف و لاغر ہو گئی تھیں، رنج وغم بھی تھا، مگر کمال کی حوصلہ مند خاتون تھیں، جو اس عالم میں بھی مسکرا رہی تھیں۔ عزم و ہمت ایسی کہ لگتا تھا کہ فولادی اعصاب ہیں۔ چٹان کی طرح مضبوط مگر شبنم کی طرح ٹھنڈا نرم مزاج، پرسکون لب و لہجہ جس میں کبھی تلخی نہیں دیکھی۔ ایسی باہمت اور عظیم خاتون کے رحلت کر جانے سے ہم واقعی رنجیدہ ہیں اور انہیں یاد کرتے ہیں۔
یاد تو ہم ریحانؔ اعظمی کو بھی بہت کرتے ہیں۔ سید ریحان عباس رضوی جو دنیا کے لیے ریحان ؔ اعظمی تھے۔ ہمارے بڑے بھائی جیسے تھے۔ گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا نام تیز رو شاعر کے طور پر موجود ہے۔ وہ شاعرِ اہلبیت کہلاتے تھے۔ پچاس ہزار سے زائد نوحے انہوں نے لکھے ہیں۔ ان کے سلام و نوحوں کے پانچ مجموعے، منقبت کے سات مجموعے اور مرثیہ کے دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ نوحہ گوئی کا آغاز انہوں نے 80کی دہائی میں کیا۔ اس سے قبل وہ غزل اور گیت لکھتے رہے، انہوں نے اپنے شعری سفر کا آغاز غزل اور گیت نگاری سے کیا۔ بڑے بڑے نامور گلوکاروں نے ان کے گیت اور غزلیں گائی ہیں۔
گذشتہ سالوں سے ریحانؔ اعظمی صاحبِ فراش تھے، پہلے اہلیہ اور بعد ازاں جواں سال بیٹے کی موت نے انہیں شدید صدمے سے دوچار کیا۔ زندگی کے آخری ایام انہوں نے کسمپرسی میں گزارے ۔ ان سے ہماری آخری ملاقات آرٹس کونسل میں الیکشن والے دن ہوئی تھی۔ علالت کے باوجود وہ وہیل چیئر پہ ہمیں ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ نصیر ترابی کا بھی خیال آرہا ہے، جو رواں برس سب سے بچھڑ گئے۔ ڈراما ’’ہمسفر‘‘ کے لیے قرۃ العین بلوچ نے گائی، وہ ہمسفر تھا، مگر اُس سے ہم نوائی نہ تھی‘۔
اس مشہور زمانہ غزل کو وہ عروج ملا کہ لوگ اسے اکثر گنگناتے رہتے ہیں۔ بھارت کا ذکر ہوا ہے تو راج کپور کے بیٹے اور رشی کپور کے بھائی راجیو کپور کا بھی تذکرہ کر دیں جو حال ہی میں دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے۔ ان کی عمر صرف 58برس تھی۔ راجیو کپور نے بہت سی فلموں میں کام کیا۔ ایک جان ہیں ہم، لاوا، رام تیری گنگا میلی، زبردست ان کی قابلِ ذکر فلمیں ہیں۔