آلات موسیقی میں ہر ساز کی ایک الگ اہمیت اور ایک جداگانہ آواز ہوتی ہے۔ ان کے استعمال کا تعلق گیت کی سچویشن اور کیفیات سے مشروط ہوتا ہے، مثلاً اگر غم کا ماحول ہے تو سِتار کا دھیمے انداز میں استعمال ہوگا، خوشی کی کیفیت ہے تو سِتار کے تاروں پر انگلیوں کا سرعت کے ساتھ استعمال کیا جائے گا!! اگر آئوٹ ڈور اور پرفَضا مقام ہے، تو فلوٹ (بانسری) کا استعمال اپنا رنگ جماتا ہے، اگر کلب کی سچویشن میں گیت فلمایا جارہا ہے، تو گٹار، ڈرم، کانگو، بینجو اور اکاڈرن کی موجودگی ناگزیر ہوتی ہے اور اگر محفل میں گیت فلمایا جارہا ہو تو سب سے بھاری اور منفرد انسٹرومنٹ ’’پیانو‘‘ کا استعمال ہمارے بے شمار فلمی گیتوں کا حصہ رہا ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ برِصغیر کی فلموں میں پیانو کے ساز پر مبنی گیتوں نے لافانی شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ پاکستانی فلموں کے گیتوں میں پیانو کا استعمال بکثرت گیا گیا اور ایک سے ایک شاہ کار گیت پیانو سے ہم آہنگ ہوکر امر سنگیت میں ڈھلے۔ گیت میں گو کہ بنیادی ساز کے طور پر پیانو کی آواز نمایاں ہوتی ہے، لیکن دیگر انسٹرومنٹس بھی بنیادی طور پر ساتھ ساتھ بجائے جاتے ہیں۔ تاہم موسیقار اعظم خواجہ خورشید انور نے فلم ’’کوئل‘‘ کے لیے ایک اچھوتا تجربہ کیا، جسے دنیائے موسیقی میں بہت قدر اور پذیرائی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
خواجہ خورشید انور نے تنویر نقوی کے لکھے ہوئے گیت ’’مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں‘‘ کو کلی طور پر پیانو پر مرتب کیا اور دیگر سازوں کی آمیزش کے بغیر یہ شاہ کار گیت میڈم نورجہاں کی گائیکی سے سجا کر دنیائے موسیقی کو ایک ماسٹر پیس کا تحفہ دیا۔ قبل ازیں خواجہ صاحب ’’انتظار‘‘ کے امر گیت ’’او جانے والے ٹھرو ذرا رُک جاؤ‘‘ کی کمپوزیشن میں پیانو، طبلہ اور وائلن کا دل کش امتزاج پیش کرچکے تھے۔
آن اسکرین پیانو کو بجاتے ہوئے گیت کی ادائیگی کا عمل جسے سب سے پہلے بڑے پیمانے میں پذیرائی ملی، اس عمل کی تفسیر تھا۔ ایس۔ایم یوسف کی فلم ’’سہیلی‘‘ کا گیت ’’ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘ جسے لکھا تھا فیاض ہاشمی نے، گایا تھا نسیم بیگم نے! یہ گیت ملکہ جذبات نیئر سلطانہ پر فلمایا گیا اور اس شاہ کار اور سدابہار گیت کے خالق موسیقار اے حمید تھے۔
ان کے اس گیت کا میوزک ایک عرصے تک ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے فلمی پروگرام ’’دریچہ‘‘ کی ’’سائن ٹیون‘‘ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے، جو اس گیت کی غیر معمولی مقبولیت کا ایک اشارہ تھا۔ 1964ء کی ریلیز ’’عورت کا پیار‘‘ کے لیے احمد رشدی کا گایا ہوا رسیلا گیت ’’حالِ دل ہم نے سنایا تو بُرا مانو گے‘‘ کی کمپوزیشن میں پیانو کا استعمال کمال مہارت سے کیا۔
یہی گیت اس فراموش کردہ فلم کا اہم حوالہ ہے۔ موسیقار دیبو بھٹہ چارجی نے رفیق رضوی کی فلم ’’شرارت‘‘ کے لیے مسعود رانا جیسے بلند آہنگ سُریلے سنگر کی آواز، مسرور انور کے گیت ’’اے دل تجھے اب ان سے یہ کیسی شکایت ہے‘‘ کے ساتھ ملا کر پیانو سے ہم آہنگ کیا، تو یہ لافانی گیت تخلیق ہوا۔ موسیقار خلیل احمد نے فلم ’’تصویر‘‘ کے لیے مہدی حسن کی میٹھی گائیکی سے سجا کر ’’اے جان وفا دل میں تیری یاد رہے گی‘‘ اور اسی سال کی ریلیز ’’لوری‘‘ کا گیت ’’میں خوشی سے کیوں نہ گائوں‘‘ جسے مجیب عالم نے گایا تھا، ان دونوں گیتوں کے خالق حمایت علی شاعر تھے۔ خلیل احمد نے دونوں گیتوں کو پیانو کی دُھن پر بڑی مہارت اور دل کشی کے ساتھ مرتب کیا۔
پاکستانی سنیما کے سب سے مقبول اور پسندیدہ موسیقار نثار بزمی نے کئی مشہور گیت پیانو سے ہم آہنگ کرکے تخلیق کیے جن میں فلم ’’عندلیب‘‘ 1969ء کا گیت ’’کچھ لوگ روٹھ کر بھی‘‘ نے سدابہار شہرت اور پسندیدگی حاصل کی۔ اس گیت کو احمد رشدی اور نورجہاں نے الگ الگ گایا تھا ، جب کہ شاعر مسرور انور تھے۔ بزمی صاحب کا مرتب کردہ پیانو کی میٹھی طرز پر مبنی فلم ’’محبت‘‘ 1972ء کا گیت ’’یہ محفل جو آج سجی ہے، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ یہ گیت طاہرہ سید کی منفرد آواز سے ہم آہنگ ہوکر ایک امر گیت بن گیا۔
بزمی صاحب نے اس نغمے کو پیانو کے خُوب صورت اور بھرپور استعمال سے ایک غیر معمولی حیثیت کا حامل بنا دیا۔ نامور موسیقار سہیل رعنا نے پیانو سے سجے متعدد سدابہار نغمے مرتب کیے، جن میں فلم ’’دوراہا‘‘ کا گیت ’’مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو‘‘ اس قدر مقبول ہوا کہ پڑوسی ملک میں بھی نقل کیا گیا علاوہ ازیں فلم ’’دل دے کے دیکھو‘‘ کا گیت ’’ذرا تم ہی سوچو‘‘ جسے مجیب عالم نے گایا اور فیاض ہاشمی نے لکھا تھا، سہیل رعنا کے گیتوں میں پیانو کو خاص اہمیت حاصل رہی۔
معروف موسیقار کمال احمد نے بھی پیانو سے مرتب دُھنوں پر متعدد نغمات تخلیق کیے، جن میں بالخصوص تین عدد گیتوں کو غیر معمولی شہرت اور پسندیدگی ملی۔ ان میں فلم ’’رنگیلا‘‘ 1970ء کا گیت ’’ہم نے جو دیکھے خواب سہانے‘‘ جسے رنگیلا نے خود گایا تھا۔ فلم ’’دولت اور دنیا‘‘ کا مہدی حسن کا گایا ہوا فلم ’’دہلیز‘‘ کے لیے ’’آج تو غیر سہی‘‘ بہ طور خاص قابل ذکر ہیں۔
پاکستانی فلموں کے لیے سب سے زیادہ فلموں کی موسیقی مرتب کرنے والے موسیقار ایم اشرف نے پیانو پر جو گیت مرتب کیے، ان میں فلم ’’نیند ہماری خواب تمہارے‘‘ کا گیت ’’جو بہ ظاہر اجنبی ہیں‘‘ فلم ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘ کا گیت ’’میرا محبوب میرے پیار کا قاتل نِکلا‘‘ فلم ’’شمع‘‘ کا گیت ’’کسی مہرباں نے آکے میری زندگی سجا دی‘‘ نے، بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ یہ گیت بالترتیب مہدی حسن، رنگیلا اور ناہید اختر نے گائے تھے۔
میٹھی دھیمی اور طبع زاد دُھنوں کے خالق موسیقار روبن گھوش نے بھی پیانو سے سجے بہت سے نغمے مرتب کیے ہیں۔ رونا لیلیٰ کا گایا ہوا فلم ’’احساس‘‘ 1972ء کے لیے گیت ’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے‘‘ فلم ’’چاہت‘‘ 1974ء کے لیے مہدی حسن کا گایا ہوا ’’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘‘ اور مہدی حسن ہی کا گایا ہوا فلم ’’امبر‘‘ کا گیت ’’جس دن سے دیکھا ہے تم کو صنم‘‘ روبن گھوش کے مرتب کردہ گیتوں میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اردو اور پنجابی کے معروف موسیقار نذیر علی نے بھی اپنی متعدد دُھنوں کو پیانو سے سجایا، جن میں ’’آنسو‘‘ کا گیت ’’جان جاں تو جو کہے‘‘ ’’مستانہ ماہی‘‘ کا گیت ’’ایناں پھول کلیاں دی محفل وچ‘‘ ’’میں بنی دلہن‘‘ کا گیت ’’ایک حسیں معصوم سا چہرہ‘‘ اور فلم ’’کس نام سے پکاروں‘‘ کا گیت ’’میرے لبوں پر گیت ہیں تیرے سُن لے اے جان وفا‘‘ موسیقار نذیر علی کے خُوب صورت ترین گیت ہیں۔
نامور موسیقار ناشاد نے بھی اپنے کئی گیتوں میں پیانو کو خُوب صورتی سے استعمال کیا۔ ان گیتوں میں فلم ’’نشان‘‘ کا گیت ’’خدا کرے کہ محبت میں یہ مقام آئے‘‘ جسے نورجہاں اور مہدی حسن نے الگ الگ گایا تھا اور ناشاد ہی کا مرتب کردہ فلم ’’وقت‘‘ سے ایک گیت ’’یہ لوگ بڑے ہم لوگوں پر ہنستے ہی رہے ہیں‘‘ کو شہرت دوام ملی۔ آج ہم نے محض چند منتخب گیتوں کا ذکر کیا ہے ورنہ پیانو کی میٹھی موسیقی سے سجے گیتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انسٹرومنٹ فلم کے پردے پر تو اکثر دیکھاگیا، لیکن حقیقی زندگی میں شاذونادر ہی کبھی کبھی عام آدمی نے دیکھا ہو۔