• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم جیسے منفرد مزاج اور متضاد میلانات کے حامل افراد شاید کرۂ ارض پر کہیں اور نہیں بستے، ہم اقوامِ عالم کی بہت نایاب قوم ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں اعتدال پسندی کا رجحان بہت پختہ ہو چلا ہے اور تحمل و برداشت کی بھی فراوانی ہے اسلئے تفصیلات میں نہیں جایا جا سکتا۔

اختصار سے کام لیا جائے تو بات یہ ہے کہ ہم اسلام کی تفہیم کے لئے بیشک وقت نہ نکال سکیں مگر اس کے لئے مرمٹنے کا جذبہ ہمہ وقت ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے۔شاید آپ کو یاد ہو کہ 2013کے انتخابات سے پہلے ’’پیو ریسرچ سینٹر‘‘ نے سروے رپورٹ کے نتائج جاری کئے تھے جن میں پوچھا گیا تھا کہ آپ اپنے ملک میں کس قسم کا نظام لانا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں؟ کئی مسلم ممالک نے اس سوال کا جواب جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر نہیں دیا۔

مثال کے طور پر آذربائیجان میں صرف 8فیصد افراد نے شریعت کو بطور نظام نافذ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ نائیجیریا میں 71فیصد، انڈونیشیا میں 72فیصد جبکہ مصر میں 74فیصد افراد نے شرعی نظام نافذ کرنے کے حق میں رائے دی جبکہ پاکستان میں 84فیصد لوگوں نے یہ کہا کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہئے۔

اس وقت انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں سے صرف تحریک انصاف ہی یہ وعدہ کر رہی تھی کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔ 2013میں تو یہ خواب پورا نہیں ہوا البتہ 2018کے انتخابات کے بعد عمران خان کو اقتدار اور اختیار ملا تو انہوں نے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔

اب وہ اُٹھتے بیٹھتے ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں اور مولانا طارق جمیل جیسے عالمِ دین ان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں تو بہت سوں کو یہ بات بری لگتی ہے۔

ہر پندرہ دن بعد پیٹرول کے نرخ بڑھتے ہیں تو مزاج برہم ہو جاتے ہیں، اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو جان نکل جاتی ہے، پرانی تنخواہوں میں گزارا نہیں ہوتا تو سرکاری ملازمین سڑکوں پر آجاتے ہیں، عمران خان فرماتے ہیں کہ 5سال میں جادوئی تبدیلی ممکن نہیں تو نامعقول لوگ بتیسی نکال کر ہنسنے لگتے ہیں

ارے صاحب! ریاست مدینہ درکار ہے تو صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا، اگر آپ سب میں یہ حوصلہ نہیں، انتظار نہیں کر سکتے تو پھر اسلامی نظام کی خواہش ہی کیوں کرتے ہو؟ جنرل ضیاء الحق جیسا مردِ مومن مردِ حق، جس کے پاس تمام تر اختیارات تھے، وہ 10سال میں شریعت کے نفاذ کا خواب پورا نہ کرسکا تو موجودہ کمزور اور ناتواں حکومت سے یہ توقع کیوں کی جا رہی ہے؟

یہ جمہوری تماشا بذاتِ خود تبدیلی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور پھر 74سال کا گند صاف کرنے کے لئے وقت تو درکار ہوگا۔ قوموں کی زندگی میں 30,40برس کوئی معنی نہیں رکھتے۔ تعمیر ہمیشہ تخریب کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم تباہی و بربادی کی انتہا کو چھو لیتی ہے تو پھر اس کے بعد ہی تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔

گھبرانے کی ضرورت نہیں، حوصلہ رکھیں، اس مٹی کو ذرا نم ہو لینے دیں، ممکن ہے آپ ان کونپلوں کو تناور درخت بنتا نہ دیکھ سکیں مگر جمع خاطر رکھیں، آپ کی اولادیں ضرور ان شجار کو برگ و بار لاتا دیکھ پائیں گی۔ غالب کا یہ مصرعہ تو یاد ہوگا ’’آہ کو چاہئے اِک عمر اثر ہونے تک‘‘۔

وہ لوگ جنہیں گاہے گاہے یہ خیال چٹکیاں کاٹتا ہے کہ پاکستان میں سویلین بالادستی ہونی چاہئے، اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی کردار نہ ہو، وزیراعظم بااختیار اور طاقتور ہو، صحافت آزاد ہو، قانون کی حکمرانی ہو، عدالتوں میں جج صاحبان بےخوف و خطر اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلے دیں، یہی افراد دراصل تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

اگر ان کے بچوں کا خیال نہ ہو تو سب کے سب اُٹھا کر بحیرہ عرب میں پھینک دیے جائیں۔ یہ قنوطیت پسند افراد سب کو مایوس کرکے پرانے پاکستان پر واپس لانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے لفافے بحال ہو سکیں۔

اس لئے آپ ان کی کسی بات پر کان نہ دھریں۔ اگر ممکن ہے تو ٹی وی، اخبار، یہاں تک کہ سوشل میڈیا تک سے دور رہیں۔ ترک ڈرامہ ارطغرل غازی، یونس ایمرے دیکھیں یا پھر فلم ہچکی دیکھ کر وقت کا بہتر استعمال کریں۔

ہاں اگر کبھی حالات حاضرہ معلوم کرنے کو دل چاہے بھی تو سرکاری ٹی وی پر اکتفا کریں یا پھر مثبت خبریں دینے والے دو نجی چینل دیکھ لیا کریں۔ بیک ڈور رابطوں کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں، حالات خراب ہونے کی افواہیں دشمن پھیلا رہے ہیں، پاکستان میں صحافیوں کو جس قدر آزادی میسر ہے، اتنی آزادی کا تو مغربی میڈیا سے منسلک جرنلسٹ سوچ بھی نہیں سکتے، ہمارے ہاں عدلیہ جس طرح غیرجانبدار، آزاد اور خودمختار ہے، برطانوی اور امریکی عدالتیں تو آئندہ 100سال میں بھی اتنی آزاد نہیں ہو سکتیں۔

گڈ گورننس کا آغاز ہو چکا ہے، ہم نہایت تیز رفتاری سے تبدیلی کی طرف گامزن ہیں اور منزل سامنے دکھائی دے رہی ہے۔

آخر میں ایک حسبِ حال واقعہ یاد آرہا ہے جو کئی سال پہلے کہیں پڑھا تھا۔ دورانِ جنگ شکست ہونے پر کئی سپاہی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ تب ٹیلیفون کی سہولت میسر نہیں ہوا کرتی تھی۔ اسیری کے دوران اپنے پیاروں کو خط لکھنا قیدیوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا۔

ایک قیدی افسر نے اپنی محبوبہ کوبھیجے گئے خط میں لکھا کہ میں دل کھول کر اپنے جذبات و احساسات کا اظہارکرنا چاہتا ہوں، تمہیں سب کچھ بتانا چاہتا ہوں مگر قیدی کیمپ کے بدبخت افسر آنے اور جانے والے تمام خطوط کو کھول کر پڑھتے ہیں اور اچھی طرح تصدیق کرنے کے بعد ہی خط متعلقہ شخص کو بھجوایا جاتا ہے۔

کئی دن گزر گئے، اسے اپنی محبوبہ کا جوابی خط تو موصول نہ ہوا تاہم قیدی کیمپ کی انتظامیہ کی طرف سے ایک مراسلہ ملا، جس میں لکھا گیا تھا کہ ہم کسی کاخط کھول کر نہیں پڑھتے، یہ بہتان ہے ہم پر۔ اگر تم نے اپنا یہ بیان واپس نہ لیا تو ہم غلط پروپیگنڈا کرنے پر تمہارے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین