• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الجھتے سلجھتے، ٹکراتے نباہتے دوہزار سات سے شروع ہونے والا جمہوریت کا پہلا راوٴنڈ اختتام پذیر ہو گیا۔ اس دور میں اداروں کے درمیان تناوٴ قائم رہا لیکن ان میں کوئی بھی دوسرے کو ناک آوٴٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی اپنی مثالی کارکردگی کے باوجود صدر آصف زرداری کی چانکیہ سیاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اداروں کے درمیان مخصوص توازن کی بنا پر پانچ سال پورے کر گئی۔ اس دور میں ابھرنے والے کج رو طرز حکومت نے بہت سی اصلاحات سے گزرنا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب شروع ہونے والا دوسرا جمہوری راوٴنڈ کیا شکل اختیار کرتا ہے۔ بقول منیر نیازی:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
جب ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
دوسرے دور میں مسلم لیگ (ن) کو جو اقتدار کا لڈو ملا ہے وہ چیونٹیوں بھرا ہے اور اب دیکھنا ہے کہ وہ اس لڈو کو کیسے کھاتی ہے۔ متوقع وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نہ صرف اپنے کئے ہوئے وعدوں کو وفا کرنا ہے بلکہ ان (وعدوں ) کو بھی جو عمران خان نے اپنے ووٹروں سے کئے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ انتخابات کے نتائج کا تقدس کیسے بحال کیا جاتا ہے کیونکہ میڈیا کا ایک حلقہ موجودہ الیکشن کو عالمی سازش قرار دے کر جمہوری عمل کو بے آبرو کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ سازشی نظریہ دان تو پچھلے پانچ سال سے جمہوری عمل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں لیکن ان کی آواز میڈیا تک محدود ہے تاہم آنے والی حکومت کو بہت گمبھیر قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر عوامی اور عالمی تاثر یہ ہوا کہ آنے والے حکمران مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ اور دیانتدار ہیں تو ہر کوئی انتظار کرنے کے لئے تیار ہو گا بصورت دیگر ادارے ایک دوسرے کو ناک آوٴٹ کرنا شروع کر دیں گے۔
موجودہ الیکشن کو عالمی سازش قرار دینے والے خود کسی بڑی سازش کا شکار نظر آتے ہیں وگرنہ انتخابات کے نتائج کئی ماہ پہلے ملک میں سامنے آنے والے اجمالی جائزوں اور مبصرین کی توقعات کے عین مطابق ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو عام توقع سے بڑھ کر دس پندرہ سیٹیں اس لئے ملی ہیں کہ جنوبی پنجاب کے بارے میں غلط مفروضے قائم کئے گئے تھے۔ ہم نے پچھلے کالم اور فروری میں لکھے ایک کالم میں ان مفروضوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنوبی پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) ہی جیتے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی جنوبی پنجاب سے جیتی ہوئی سیٹوں کو شامل کر لیا جائے تو پنجاب کے الیکشن نتائج توقعات کے عین مطابق ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کو اگر حیرت ہے تو پیپلز پارٹی کی سندھ میں بھاری جیت کے بارے میں ہے کہ اتنی بری کارکردگی کے باوجود وہ کیسے فتحیاب ہوئی لیکن عوام نے اسے منتخب کیا ہے لہٰذا اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔غالب امکان یہی ہے کہ سازشی نظریئے کچھ دنوں میں اپنی موت آپ مر جائیں گے کیونکہ اس وقت کوئی بھی طاقتور ادارہ دوسرے کو ناک آوٴٹ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے لیکن آنے والی حکومت کو درپیش مسائل لوہے کے چنے ہیں جن کو چبانا اور ناک آوٴٹ ہونے سے بچناآسان نہیں ہے۔
نئی آنے والی حکومت کو عارضی انتظامی امور کا بھی سامنا ہے اور طویل المیعاد نظام کی اصلاح کے مسائل کا بھی۔ بنیادی طور پر لوڈشیڈنگ یا توانائی کے مسائل انتظامی نوعیت کے ہیں۔ پاکستان میں ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے لیکن اس کیلئے مناسب انتظامی ڈھانچہ ناپید ہے۔ اگر آنے والی حکومت ملک کے توانائی کے تمام وسائل کو زیر استعمال لانے کیلئے مستعد تنظیمی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو چند سالوں میں لوڈ شیڈنگ داستان پارینہ بن جائے گی۔
پاکستان کی ریاستی کارپوریشنوں (پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے اور واپڈا وغیرہ) میں کئی سو بلین کے سالانہ گھاٹے بھی عوام اور بجٹ کا خون نچوڑ رہے ہیں لیکن یہ بھی انتظامی مسائل کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ دوررس نتائج کا حامل ہوگا۔ اگر ان کے گھاٹوں سے بچنے کیلئے ان کی لوٹ سیل لگائی گئی تو اس پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھیں گے اور حکومت پر جائز یا بلا جواز بدعنوانی کے الزامات لگیں گے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی ایک کالم میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ان اداروں کے اثاثوں کی مالیت کا اندازہ بین الاقوامی شہرت کے مالک اداروں سے کرایا جائے اس کے بعد فیصلہ کیا جائے کہ ان میں سے کس ادارے کی نجکاری بہتر ہے اور کس کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو اگر ہر ادارے کو ٹھیکے پر ہی چلانا ہے (جیسے گوادر کی بندرگاہ) تو سوال اٹھے گا کہ پھر حکومت بھی کسی بیرونی طاقت کو ٹھیکے پر دے دی جائے۔ غرضیکہ ان اداروں کے بارے میں شفاف پالیسی بنانے اور چلانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں سنجیدہ تر مسئلہ نظام کی بنیادی اصلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک طرف تو تقسیم دولت کو منصفانہ بنایا جائے اور دوسری طرف ریاست کے ساتھ شہریوں کا نیا کنٹریکٹ (معاہدہ) تشکیل دیا جائے۔ تقسیم دولت کے مسئلے کو ہی لے لیجئے، بظاہر پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار دیوالیہ پن کے قریب پہنچا ہوا ملک ہے لیکن اس کی اسٹاک مارکیٹ پچھلے کئی سالوں سے نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ یہ اس لئے کہ اس کی بڑی کارپوریشنیں ریکارڈ منافع دے رہی ہیں۔ بینکنگ سیکٹر ہو یا سیمنٹ سازی، کھاد پیدا کرنے والے کارخانے ہوں یا انشورنس کمپنیاں سب انتہائی منافع میں چل رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ منافع پاکستانی عوام سے ہی اکٹھا کیا جاتا ہے ۔ دوسری طرف دیوالیہ حکومت عوام کو کسی طرح کی سہولتیں دینے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے ان کی حالت بدتر ہوتی جارہی ہے یعنی معاشی نظام اس انداز سے مرتبت ہے کہ امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر۔
مثال کے طور پر اس نوع کی بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج تعلیمی نظام میں بہت بھیانک شکل میں سامنے آئی ہے۔ تعلیمی نظام کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیا ہر پیدا ہونے والے بچے کو یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں یا نہیں۔ امریکہ جیسے سرمایہ دار ملک میں بھی ہائی اسکول تک کا نظام ریاستیں اپنے کنٹرول میں رکھتی ہیں تاکہ غریب اور امیر بچے کو ایک جیسے تعلیمی مواقع میسر ہوں اور یہی نظام عوام میں سے آنے والے بل کلنٹن اور بارک اوباما کو امریکہ کی کرسی صدارت پر براجمان کراتا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام مکمل طور پر طبقاتی بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ عوام کے بچوں کو وہ مواقع میسر ہی نہیں ہوں گے جو خواص کو ہیں۔ تعلیم کے علاوہ باقی شعبہ ہائے حیات میں بھی طبقاتی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو عوامی بغاوتیں ناگزیر ہوں گی جس سے جمہوری نظام پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔
ملک میں مذہبی، فقہی اور نسلی منافرت بھی دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں بھی ریاست کو فقہی سیاست سے دور رہتے ہوئے غیر جانبدارانہ اداروں کی تشکیل دینا ہے۔ ریاست کی نظر میں سب شہری برابر ہونا چاہئیں اور ان کے حقوق، جان و مال کا یکساں تحفظ کیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں قومیتوں کی ثقافت اور ان کی زبانوں کا احترام کیا جانا چاہئے۔ یہ جمہوریت کے بنیادی تقاضے ہیں اور ان کو پورا کرنے سے ہی پاکستان کے اندر ہم آہنگی پیدا ہوگی اور اس کا بیرونی دنیا میں وقار بڑھے گا۔ اندرون ملک بھی ریاست کے دوسرے ادارے بھی سیاسی حکومت کا احترام کرنے پر مجبور ہوں گے اور آخر کار اس کو اعلی تر اختیارات دینے کیلئے تیار ہوں گے۔ ابھی تک بہت سے شعبوں کے اختیارات (امور خارجہ وغیرہ) سیاسی حکومتوں کے دائرہ کار میں نہیں ہیں جو وہ مثالی کارکردگی سے واپس لے سکتی ہے۔
تازہ ترین