تحریر:ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی
چند روز قبل برطانیہ کے موقر جریدے دی انڈیپنڈنٹ اردو کا ایک معلوماتی آرٹیکل میری نظر سے گزرا ،صاحب ِ مضمون صحافی سجاد اظہر کے مطابق منگلا ڈیم کے قریب مقدس کتاب رامائن کے ہیرو رام چندر سے منسوب قلعہ ،پوٹھوہار کے قلعوں میں سب سے اچھی حالت میں موجود ہے جسے معمولی کوشش کے ذریعے نہ صرف بحال کیا جا سکتا ہے بلکہ اسے ایک بہترین اور خوبصورت سیا حتی مقام میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ قلعہ رام کوٹ کے نام سے مشہور منفرد طرز تعمیر کا حامل یہ عظیم الشان قلعہ جہلم اور پونچھ کے دریائوں کے سنگم پر ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے جو تین اطراف سے پانی میں گھِرا ہوا ہے،تاریخی قلعے تک رسائی کیلئے کشتیوں کی مدد سے آبی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔جریدے کے مطابق مرکزی دروازے کے بائیں جانب تھوڑی اونچائی پر ایک مندر آج بھی موجود ہے جس میں مقدس مورتیوں کو رکھنے کےلئے طاق بھی ہیں، مندر کی دیواریں گر چکی ہیں مگر ا س میں سرخ رنگ کا ایک بڑا شِولنگ ابھی تک موجود ہے جہاں ماضی میں منتوں اور مرادوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے تھے۔آج بھی قلعے میں ہندو دھرم سے متعلقہ ایسے ناقابلِ تردید آثار پائے جاتے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ قلعہ ہندو آبادی کا مسکن تھا۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ13ویں صدی کے بعد سے پوٹھوہا رکا خطہ مختلف قوموں کے درمیان جنگوں کا مرکز بنا رہا ، یہاں جنگجو گکھڑ قبیلے کا بھی راج رہا ہے جو قلعوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش میںخصوصی مہارت رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ گکھڑوں نے دفاعی نقطہ نظر سے قلعہ رام کوٹ میں متعدد تبدیلیاں بھی کیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ غلو نامی گکھڑسردارنے منگلا کے شمال مشرقی کنارے پر جے شری رام چندر کے نام پر رام پور آباد قلعہ تعمیر کرایا تھاجو بعد میں رام کوٹ کے نام سے مشہور ہو گیا، مذکورہ قلعے کی تزئین و آرائش گکھڑ رانی منگو کے دور میں کی گئی جس نے اپنے دورِ اقتدار میں قلعہ رام کوٹ میں بہت سے تعمیراتی کام کروائے۔ جغرافیائی طور پر اس قلعے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنت نظیر وادی کشمیر کی راجدھانی سری نگر تک رسائی کیلئے قدیم دورکا اہم ترین راستہ یہاںسے ہو کر گزرتا تھا، کشمیر پر ڈوگرہ راج کے دوران یہ قلعہ عسکری مقاصد کیلئے بھی استعمال ہوتا رہا ۔ رام کوٹ قلعے کے پڑوس میں لگ بھگ بیس کلومیٹر کے فاصلے پرمشہورہندو راجا پورس کی بیٹی راج کماری منگلا سے منسوب منگلا کا قلعہ بھی واقع ہے ، تاریخ دانوں کے مطابق ڈھائی ہزار سال قبل یونانی جنگجو سکندر اعظم اور راجا پورس کی فوجوں کے درمیان عسکری معرکہ پاکستانی سرزمین میں واقع اس تاریخی قلعے کے قریب ہوا تھا۔برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں ایک اور دلچسپ تذکرہ کیا ہے کہ ’دی ہائی لینڈ زآف انڈیا‘ از میجر جنرل (ر)ڈیوڈ جے ایف نیوال کے صفحہ 181 پر درج ہے کہ گکھڑوں کے آنے کے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے پھروالا میں ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن کا ہیرو رام چندر پیدا ہوا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یہاں رام چندر کی نسبت سے رام کوٹ بسایا گیا تھا۔ اس کی تصدیق حبیب شاہ بخاری اپنی کتاب ’بھٹوار، ماہ و سال کے آئینے میں‘ کے صفحہ 57 پر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’منگلا ڈیم کے شمال مشرقی کنارے پر قلعہ رام پور آباد ہے جسے شری رام چندر کے نام پر تعمیر کیا گیا تھا ‘‘۔مذہبی طور پرشری رام کی جنم بھومی ایودھیا کو قرار دیا جاتا ہے، تاہم تاریخ دانوں کے نزدیک حتمی مقام کے بارے میں رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے، اس حوالے سے بھارت کے کئی مقامات ، پاکستان ، افغانستان ، نیپال اور مشرق وسطیٰ میں شری رام کی جائے پیدائش کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے جن میں سے ایک منگلا ڈیم کے قریب پاکستان کی حدود میں واقع قلعہ رام کوٹ بھی ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ شاندار ماضی کا حامل اور فن تعمیر کا شاہکار یہ عظیم الشان قلعہ آج ایک اجڑے ہوئے کھنڈر کا منظر پیش کررہاہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تمام مذاہب کی مقدس اور تاریخی مقامات کی حفاظت، تزئین و آرائش اورسیکورٹی کا خیال کرنا حکومت وقت کا فرض ہے ، یہ امر اطمینان بخش ہے کہ آج پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت، اعلیٰ عدلیہ اور انتظامیہ غیرمسلم اقلیتوں کے مذہبی مقامات کی بحالی کیلئے ایک پیج پر ہیں،اس حوالے سے کرتارپورراہداری کا اوپن ہونا مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے،اسی طرح سپریم کورٹ نے کرک میں شری پرم ہنس جی مہاراج کی بحالی اور ملتان کے قدیمی پراہ لاد مندر میں ہولی تہوار منانے کیلئے احکامات جاری کرکے غیرمسلم کمیونٹی کے دِل جیت لئے ہیں۔ میں اپنے گزشتہ کالموں میں مختلف تاریخی مقامات کی نشاندہی کرچکا ہوں جن پر حکومتِ پاکستان اگر درست انداز میں توجہ دے تو کثیر تعداد میں ریوینو جمع کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، زرمبالہ کے یہ ذخائر نہ صرف ہمیں غیرملکی قرضوں سے چھٹکارا دلوا سکتے ہیں بلکہ عالمی سیاحوں کی آمدورفت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پوری دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔پاکستان سمیت دنیا بھر کی ہندو کمیونٹی کی مذہبی و جذباتی وابستگی شری رام چندر سے منسوب قلعہ رام کوٹ سے وابستہ ہے، اس لئے یہ درخواست ہی نہیں ہماری دیرینہ خواہش بھی ہے کہ قلعہ رام کوٹ میں واقع شِولنگ مندر کو بحال کیا جائے تاکہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر یاترا کا سلسلہ شروع کیا جاسکے، اگر حکومت کے کسی ادارے کو لگتا ہے کہ وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے تو اس تاریخی مقدس مقام کو پاکستان کا صف اول کا سیاحتی مقام بنانے کیلئے پاکستان ہندو کونسل اپنا بھرپورکردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)