• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
11 مئی کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے سیاسی منظر پر جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست بھی شامل ہے۔ ملک کی اس اہم سیاسی جماعت کو مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی میں صرف 40 نشستیں حاصل ہوئیں۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ چند مخصوص حلقوں میں پیپلز پارٹی کی شکست پر بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔ بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک صوبائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وفاق کی سیاست کرنے والی جماعت کا ایک صوبے تک محدود ہو جانا وفاق پاکستان کیلئے مفید ہے یا نقصان دہ۔ اس پر بھی غور کیجئے کہ قومی اسمبلی میں 35 نشستیں جیتنے والی تحریک انصاف کو دوسری بڑی سیاسی قوت قرار دیا جا رہا ہے اور دلیل اس کی الیکشن کمیشن کا یہ اعلان کہ تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ سبحان اللہ ! متناسب نمائندگی کے غیر متعلق اصول سے استنباط کی جانے والی یہ دلیل 2002ء میں کسی کو نہیں سوجھی جب پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی مستقل حقیقت نہیں ہوتی۔جمہوریت معینہ مدت کے بعد عوام سے استصواب رائے کا نام ہے۔ پیپلز پارٹی نے گزشتہ بیالیس برس کے دوران دس عام انتخابات میں پانچ دفعہ کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت بہت سے اتار چڑھاؤ سے گزری ہے۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے عوام مستقبل میں بھی اس جماعت کو اپنے اعتماد سے نواز سکتے ہیں۔ 2013ء میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی 1997ء سے زیادہ خراب تو نہیں رہی جب اسے قومی اسمبلی کی صرف 17 نشستیں ملی تھیں اور یہ جماعت ملک کے کسی صوبے میں حکومت نہیں بنا سکی تھی۔ لیکن 1990ء، 1997ء اور 2002ء میں پاکستان کے عوام کو ٹھیک ٹھیک معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی کن قوتوں سے نبرد آزما ہے اور یہ کہ اسے کس طرح دھاندلی کا نشانہ بنایا گیا ۔ تشویش کا اصل پہلو یہ ہے کہ 2013ء میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو پیپلز پارٹی انتخاب جیت سکتی تھی۔ دھاندلی کے الزامات سے قطع نظر ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کا امکان معدوم تھا۔ پیپلز پارٹی کے خلاف فیصلہ کن دھاندلی پولنگ اسٹیشن پر نہیں ہوئی۔ اس کا بندوبست تو 2008ء کے موسم گرما سے کیا جا رہا تھا اور پیپلز پارٹی کی قیادت اس یورش کا سیاسی مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی بنیاد چھیالیس برس پہلے رکھی گئی۔ تب سرد جنگ جاری تھی۔ قومی ریاستوں کی آزادی کا عمل مکمل ہو رہا تھا۔ ویتنام کی جنگ ایک عالمی استعارہ بن چکی تھی۔ مزدوروں اور کسانوں کے علاوہ ابھرتا ہوا تعلیم یافتہ طبقہ سیاست میں اپنے حصے کا طلب گار تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں طاقت کی آویزش جاری تھی۔ بھٹو صاحب نے ایک مقبولیت پسند سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ جمہوریت،سوشلزم، اسلام اور قوم پرستی کا آمیزہ پیش کیا۔سوشلزم یا مذہب تو سرے سے سیاست کی قابل عمل بنیاد ہی فراہم نہیں کرتے۔ جمہوریت سے بھٹو صاحب کی وابستگی پر بھی بہت سے سوالیہ نشان تھے۔ بھٹو صاحب دراصل ایک قوم پرست رہنما تھے۔ ان کے سیاسی بیانیے کو 1977ء میں شکست ہو گئی۔ بھٹو صاحب کے بعد پیپلز پارٹی کا نیا تشخص سامنے آیا جس کا بنیادی نکتہ غیر جمہوری قوتوں کے مقابلے میں عوام کے حق حکمرانی کا دفاع تھا۔ پیپلز پارٹی کے وہ کارکن جنہیں نظریاتی کہا جاتا ہے آج بھی 70ء کے بیانیے میں زندہ ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے نہایت طاقتور مخالفین کے ساتھ چومکھی لڑائی لڑی لیکن وہ پیپلز پارٹی کا نیا سیاسی تشخص واضح طور پر بیان کرنے سے گریزاں رہیں۔
مقبولیت پسند سیاست کی اپنی تحدیدات ہوتی ہیں۔ بھٹو صاحب نے ہندوستان سے ہزار سال لڑنے کا نعرہ لگا کر بالواسطہ طور پر ملکی سیاست میں فوج کے غلبے کو سہارا دیا۔ اسلامی دنیا کے موہوم تصور کو ہوا دینے سے سیاست اور سماج میں ملائیت کے لئے جگہ پیدا ہوئی۔ سوشلزم کے نام پر نیم دلی سے کئے جانے والے اقدامات سے کاروباری طبقہ ہمیشہ کے لئے پیپلز پارٹی سے متنفر ہو گیا۔ پُرامن مقاصد کے لئے نیوکلیئر صلاحیت کا ڈول ڈالا ۔ نیو کلیئر صلاحیت مل گئی۔پُرامن مقاصد کی حقیقت توانائی کے بحران سے ظاہر ہے ۔ قوم گھاس کھا رہی ہے اور گالی پیپلز پارٹی کو پڑتی ہے۔ ضیاء الحق نے تو افغان جہاد سے فائدہ اٹھایا۔ افغانستان میں پاکستانی مداخلت کی پنیری بھٹو صاحب نے نصیراللہ بابر کے توسط سے لگائی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے پہلے دور اقتدار میں جو اقدامات کئے ان کا ناگزیر نتیجہ تھا کہ آج پاکستان کا سیاسی منظر مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بالخصوص پنجاب کے لوگوں کی اکثریت سیاسی اور سماجی طور پر دائیں بازو کا سیاسی تشخص اختیار کر چکی ہے۔ 18 کروڑ کی آبادی میں دو کروڑ افراد بھی ایسے نہیں جو 1967ء میں قومی زندگی کا فعال حصہ تھے۔ پیپلز پارٹی سے جذباتی وابستگی رکھنے والے افراد کی تعداد قابل ذکر نہیں رہی اور پیپلز پارٹی نئے پاکستان میں ایسا سیاسی موٴقف تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے جسے عوام کی اکثریت اپنے لئے ایک قابل عمل سیاسی امکان سمجھتی ہو۔
کسی سیاسی جماعت کے لئے عوامی تائید کا حصول اور پھر اس تائید کو انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنا ہوائی کھیل نہیں ہوتے۔ اس کے لئے متحرک قیادت، موٴثر تنظیم سازی اور سب سے بڑھ کر زمینی حقائق سے تعلق رکھنے والے سیاسی بیانیے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لئے بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک بڑا المیہ تھی لیکن پیپلز پارٹی میں دوسری اور تیسری صف کی قیادت کا بحران بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اس جماعت میں تنظیم سازی کے مسائل کی تاریخ بھی پرانی ہے۔ حال کا المیہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا سیاسی تشخص دھندلا چکا اور یہ جماعت ایک مربوط سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے۔ جمہوریت میں برسراقتدار سیاسی جماعت کو قانون سازی اور خالص سیاسی حرکیات کے ضمن میں بھی کارکردگی دکھانا ہوتی ہے لیکن معاشی ترقی اور عوامی فلاح کے لئے ٹھوس اقدامات اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔اٹھارہویں آئینی ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور انسانی حقوق کے لئے اہم اقدامات کے تناظر میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی زیادہ خراب نہیں رہی۔ جمہوری ثقافت کے ضمن میں بھی نہایت مثبت روایات قائم ہوئیں، یہ بھی درست ہے کہ اس حکومت کو مسلسل مختلف اداروں اور قوتوں کی درپردہ اور کھلی مزاحمت کا سامنا رہا ۔تاہم قیادت اور تنظیم کی کمزوریوں کے باعث پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کو پوری طرح بیان نہیں کر سکی۔ 2008ء میں بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش وہ اہم موڑ تھا جس کے بعد پیپلز پارٹی حکومت کو سنبھلنے نہیں دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس اہم معاملے پر اظہار خیال کرنا صرف آصف زرداری کا منصب تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے دور ازکار مفروضوں کی بنیاد پر طاہر القادری اور عمران خان کی مخالفت سے گریز کر کے اپنے تشخص کو نقصان پہنچایا۔ انتخابات میں کسی جماعت کی ناکامی جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انتخاب ہی نہیں لڑا۔ پیپلز پارٹی نے بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد سے ہر معاملے میں بین الاقوامی سازشوں کی دہائی دینا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی کمزوریاں لے ڈوبیں۔ عوامی حمایت پر بھروسہ کرنے والی اس جماعت نے حالیہ انتخاب مقامی سطح پر بارسوخ سیاسی گھرانوں کے بل پر لڑا ہے۔ یہ گھرانے تو بدلتے موسموں کے ساتھ تبدیل ہونے کی روایت رکھتے ہیں۔ اگلے انتخاب میں پیپلزپارٹی کو اس طبقے سے امیدوار بھی نہیں ملیں گے۔ مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف سینٹر رائٹ کی جماعتیں ہیں چنانچہ پاکستان میں عوام دوست، روشن خیال اور جمہوری سیاسی موٴقف کا راستہ بند نہیں ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بدلے ہوئے زمینی حقائق میں ایک نیا سیاسی بیانیہ اور تشخص تشکیل دیتی ہے یا بھٹو خاندان کی قربانیوں کے نوحے سنانے پر انحصار جاری رکھتی ہے۔
تازہ ترین