• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی احمد میاں برکاتی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : بھلا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، حق ہے، اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو اندھا ہے، بات یہی ہے کہ نصیحت عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو نہیں توڑتے اور جو لوگ ان سب (حقوق اللہ، حقوق الرسول، حقوق العباد اور اپنے حقوقِ قرابت) کو جوڑے رکھتے ہیں، جن کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم فرمایا ہے اور اپنے رب کی خشیت میں رہتے ہیں اور برے حساب سے خائف رہتے ہیںاور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لئے صبر کرتے اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعے برائی کو دور کرتے رہتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا (حسین) گھر ہے۔(سورۃ الرعد آیات ۱۹ تا ۲۲)

ان آیات میں اللہ رب العزت نے اہل حق اور اہل ایمان کی علامات و صفات بیان فرمائی ہیں۔

پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں۔اس سے مراد وہ تما م عہد و پیمان ہیںجو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے لئے ہیں، جن میں سب سے پہلا وہ عہد ربوبیت ہے جو ازل میں تمام ارواح کو حاضر کر کے لیا گیا تھا ، اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ‘‘ جس کے جواب میں سب نےیک زبان ہو کرکہا تھا،بَلٰی ’’کیوں نہیں، آپ ضرور ہمارے رب ہیں‘‘بندوں کی جانب سے اس اقرار میںتمام احکام الٰہی کی اطاعت ، تمام فرائض کی ادائیگی اور تمام ناجائز چیزوں سے اجتناب شامل ہے۔

دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ کسی عہد و میثاق کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔اس میں وہ عہد و پیمان بھی داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان ہیں جس کا ذکر پہلی صفت میں بھی کیا گیا ہے ۔ اسی طرح وہ عہد بھی جو امت کے لوگ اپنے نبی اور رسولﷺ سے کرتے ہیں۔اسی طرح وہ معاہدے بھی جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے۔

حضرت عوف بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓسے اس بات پر عہد اور بیعت لی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹہرائیں گے ، پنج وقتہ نماز کی پابندی کریں گے ،اپنے امراء کی جائزامور میں اطاعت کریں گے اور کسی انسان سے کسی چیز کا سوال نہیں کریںگے (سنن ابوداؤد)

روایت میں آتا ہے کہ جو لوگ اس بیعت میں شریک تھے ، ان کی پابندی عہد کا یہ حال تھا کہ اگر گھوڑے پر سواری کے دوران ان کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتاتو وہ کسی انسان کو کہنے کے بجائے خود سواری سے اتر کر اٹھاتے تھے۔

تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ یہ ایسے لوگ ہیں ،اللہ تعالیٰ نے رشتے داری کے حوالے سے جن تعلقات کے قائم رکھنے کا انہیں حکم دیا ہے ، انہیں قائم رکھتے ہیں۔

چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ اپنے رب سے اس کی عظمت و محبت کی وجہ سے ڈرتے ہیں کہ ہمارا کوئی قول وفعل اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث نہ بن جائے۔

پانچویں صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ قیامت کے دن کے برے حساب کی سختی سے ڈرتے ہیں۔

چھٹی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ لوگ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے صبر سے کام لیتے ہیں۔

ساتویں صفت یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ نماز کو پورے آداب و شرائط اور خشوع و خضوع کے ساتھ قائم کرنے والے ہیں۔

آٹھویں صفت یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اعلانیہ اور پوشیدہ اللہ کے نام پر بھی خرچ کرتے ہیں۔

نویں صفت یہ بیان فرمائی کہ یہ لوگ برائی کو بھلائی سے ، دشمنی کو دوستی سے، ظلم کو عفو درگزر سے دفع کرتے ہیں۔ان مطیع و فرماںبردار بندوں کی صفات بیان کرنے کے بعد ان کی جزائے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان ہی لوگوں کے لئے دار آخرت کی فلاح ہے، وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہوں گے، انہیں کبھی وہاں سے نکالا نہیں جائے گااور یہ انعام ربانی صرف ان لوگوں کی ذات تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ ان مقبول بندوں کی رعایت اور برکت سے ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوںاور اولاد کو بھی اس میں حصہ ملے گا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ان مقبول بندوں میں شامل فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)

تازہ ترین