• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقبال کی ذاتی زندگی خاصی دلچسپ اور کسی حد تک پیچیدہ بھی تھی۔ ان کی پہلی شادی صرف سولہ برس کی عمر میں کریم بی بی سے ہوئی جس سے وہ بالکل خوش نہیں تھے۔ لند ن میں قیام کے دوران ان کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی جو فلسفے میں تعلیم کی غرض سے وہاں مقیم تھیں، دونوں کے علمی رجحانات اور طبیعت میل کھاتی تھی اس لئے ان کے تعلقات میں دن بدن اضافہ ہونے لگا، مختلف موضوعات پر ان میں علمی بحثیں ہوا کرتیں جو خط و کتابت کی صورت میں بھی جاری رہتیں، صرف یہی نہیں بلکہ اقبال اپنے دل کی ہر بات عطیہ بیگم سے کرتے تھے، حتیٰ کہ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی اقبال نے عطیہ بیگم کو خط لکھا کہ ’’میری زندگی سخت مصیبت بنی ہوئی ہے۔ وہ مجھ پر کوئی بھی بیوی زبردستی منڈھ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی ٹھہرانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا…میں بیوی کی کفالت کرنے پر بالکل رضامند ہوں لیکن اسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی زندگی اجیرن بنانے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے مسرت اور خوشی حاصل کرنے کا حق ہے…‘‘ یہ واضح نہیں کہ اس خط کا عطیہ فیضی نے کیا جواب دیا مگر آگے چل کر اقبال کی ازدواجی زندگی میں ایک عجیب و غریب موڑ آیا، چونکہ اقبال اپنی پہلی بیوی سے مطمئن نہیں تھے اس لئے ان کے والدین اور بڑے بھائی ان کی دوسری شادی کرنا چاہتے تھے سو 1910میں اقبال کا نکاح سردار بیگم سے ہوا مگر رخصتی عمل میں نہیں آئی۔ اس نکاح کے بعد اقبال کی چھوٹی بہن (اس کا نام بھی کریم بی بی تھا) نے اقبال کو خفیہ خطوط لکھے جس میں انہیں بتایا کہ سردار بیگم کا چال چلن ٹھیک نہیں۔ بہن کریم بی بی نے یہ خطوط اقبال کی بیٹی معراج بیگم (جو بیوی کریم بی بی سے تھی) سے لکھوائے تھے۔ جب اقبال کو یہ خطوط ملے تو انہوں نے اس کے مندرجات کو درست سمجھ کر سردار بیگم کو گھر بیٹھے طلاق دے دی۔ اسی دوران اقبال کی بہن نے ایک لڑکی پسند کر لی، رشتہ طے ہو گیا، جب اقبال بارات لے کر لدھیانہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تو ان کی مرحومہ سالی کی دختر ہے، مگر تب دیر ہو چکی تھی، سو اقبال اسے بیاہ کر لے آئے، اس بیوی کا نام مختار بیگم تھا۔ ادھر سردار بیگم کو جب طلاق کے کاغذ ملے تو انہوں نے خط لکھ کر کہا کہ و ہ بے گناہ ہیں ’’میرا آپ سے نکاح ہو چکا ہے لہٰذا اب میں کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کروں گی۔‘‘ ایسے میں ایک روز اقبال کو اپنی بیٹی معراج بیگم کا خط ملا جس کی لکھائی آپ نے پہچان لی کہ یہ انہی گمنام خطوط سے ملتی جلتی ہے، آپ نے بیٹی سے باز پرس کی تو اس نے سچ اگل دیا۔ جب آپ کو حقیقت کا علم ہوا تو آپ نے سردار بیگم کو گھر لانے کا فیصلہ کیا۔ مولانا نورالدین نے اقبال کو دوبارہ نکاح پڑھوانے کا مشورہ دیا چنانچہ کچھ دن بعد تینوں بیگمات انارکلی لاہور والے مکان میں اکٹھی رہنے لگیں مگر تھوڑے عرصے بعد پہلی بیوی کریم بی بی واپس میکے چلی گئی۔
علامہ اقبال کی زندگی کا دوسرا اہم پہلو ان کے غیر مسلم اساتذہ اور دوستیاں ہیں۔ اگر ان کے اساتذہ کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو ان میں زیادہ تعداد غیرمسلم اساتذہ کی تھی جن میں ہندو بھی شامل تھے، آپ نے اپنا مقالہ بھی نہایت عقیدت کے ساتھ پروفیسر تھامس آرنلڈ کے نام کیا۔ وہ تمام مغربی علوم جن کے بارے میں ہمارے چند دانشور آج یہ پرچار کرتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر ہم اپنے تہذیبی ورثے سے دور ہو رہے ہیں، ان کی تعلیم اقبال نے غیر مسلم اساتذہ سے ہندوستان، انگلستان اور جرمنی میں حاصل کی۔ ذاتی زندگی میں بھی اقبال کی دوستیاں یکساں طور پر مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں سے تھیں، جرمنی میں آپ کی دوستی مس ویگے ناست سے ہوئی جو آپ سے عمر میں تین سال بڑی تھی اور خوبصورت خاتون تھی، وہ ہائیڈل برگ میں غیر ملکی طلبا کو جرمن زبان و ادب کی تعلیم دیتی تھی، اقبال نے ہندوستان واپس آکر بھی ان سے رابطہ رکھا۔ اقبال کی حیدر آباد کے مہاراجہ کشن پرشاد سے بھی بہت دوستی رہی، ایک موقع پر اقبال نے مہاراجہ کو خط لکھا کہ ’’میں رامائن کا اردو ترجمہ کرنا چاہتا ہوں۔ مسیح جہانگیری (نامی شاعر) نے رامائن کے قصے کو فارسی میں نظم کیا ہے۔ اگر سرکار کے کتب خانے میں وہ موجود ہوں تو کیا چند روز کے لئے عاریتاً مل سکتا ہے؟‘‘
اقبال کی زندگی کا تیسرا اہم پہلو مسلمانوں کے لئے ان کی تڑپ اور ان کے لیڈر قائد اعظم کا احترام ہے۔ ایک مرتبہ پنڈت نہرو اقبال سے ملنے کے لئے آئے، ساتھ میاں و بیگم افتخار الدین بھی تھے، اقبال اور نہرو کی مختلف موضوعات پر کافی دیر گفتگو رہی، زیادہ وقت اقبال نے یہ گفتگو چارپائی پر لیٹے ہوئےکی، ایک موقع پر میاں افتخار الدین بولے ’’ڈاکٹر صاحب! آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے؟ مسلمان، مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں۔‘‘ اقبال نے غصے سے جواب دیا ’’اچھا تو یہ خیال ہے۔ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں۔ میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔‘‘
جب ہم کالج میں تھے تو علامہ اقبال کی زندگی کے بارے میں عجیب و غریب افواہیں ہم نے سن رکھی تھیں، علامہ اقبال کا تصور ہمارے ذہنوں میں فقط ایک شاعر کا تھا اور شاعر بھی ایسا جو سارا دن اپنے گھر کی چارپائی پر بیٹھا حقہ پیتا رہتا، کبوتر بازی کرتا اور دوستوں سے گپ شپ کر کے دن گزار دیتا تھا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، اقبال جیسا سرگرم شخص شاید ہی کوئی اور ہو، شاعری تو ان کی زندگی کا فقط ایک پہلو تھا، اقبال پوری طرح عملی سیاست میں سرگرم تھے، انجمن کے جلسوں میں شرکت کرتے تھے، ایک زمانے میں قانون کی پریکٹس بھی کرتے اور بیک وقت کالج میں بھی پڑھاتے تھے، جگہ جگہ لیکچرز دیتے، اورینٹل کالج کے ڈین رہے، شہر کی ہر اہم تقریب میں آپ کو مدعو کیا جاتا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں گورنر ہاؤس پنجاب میں گورنر میکلیگن نے اقبال کو کہا کہ حکومت آپ کو ’’سر‘‘ کا خطاب دینا چاہتی ہے۔ ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ اقبال نے یہ خطاب لینے سے پہلے شرط رکھی کہ پہلے ان کے استاد کو شمس العلما کا خطاب دیا جائے مگر ایسی کوئی بات نہیں۔ اقبال نے اس آفر کو قبول فرمایا، اس کے بعد گورنر نے کہا کہ شمس العلما کے خطاب کے لئے اس مرتبہ پنجاب کی باری ہے، کوئی نام تجویز کریں۔ جواب میں اقبال نے کہا ’’میں اس شرط پر بتاؤں گا کہ اس کے بعد کسی اور نام پر غور نہ کیا جائے۔‘‘ گورنر نے پہلے تامل کیا مگر پھر کہا ’’اچھا! نام بتایئے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے اپنے استاد مولوی میر حسن کا نام دیا جس پر گورنر نے کہا کہ میں نے ان کا نام نہیں سنا، ان کی کون سی تصانیف ہیں، جس پر اقبال نے کہا کہ میں ان کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے ہوں۔
اس عظیم شخص کی زندگی پر اس کا اپنا فارسی شعر ہی صادق آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ انسان ایسی شاندار زندگی بسر کرے کہ اگر موت فی الحقیقت دائمی موت کی شکل اختیار کرے تو خود خدا شرمسار ہو کہ کیسی پُر عظمت شے کو فنا کے گھاٹ اتار دیا، اسے ابدیت کیوں نہ بخشی!
نوٹ :ان دونوں کالموں میں درج واقعات ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین کی کتاب ’’حیات اقبال۔ عہد بہ عہد‘‘ سے لئے گئے ہیں۔ یہ کالم یوم اقبال کے حوالے سے لکھے گئے تھے مگر21اپریل کو ہونے والی تقریب کے دوران نہیں پڑھے گئے۔
تازہ ترین