• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نورجہاں نے ایوب دور میں فیض کی باغیانہ نظم گا کر اسے امر کردیا

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) فیض احمد فیض کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ کو ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز ملی تو فیض کے یہ الفاظ امر ہو گئے۔ یہ نظم کہنے پر فیض کی اسیری اور نور جہاں کی بغاوت پر مبنی ایک قصہ ویب سائٹ امیگر پر ’پرانا پاکستانی‘ نامی اکاؤنٹ سے پوسٹ کیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق 1950ءکی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی میں چندہ جمع کرنے کے لیے ایک محفل موسیقی کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ جنرل ایوب خان کے اقتدار کا زمانہ تھا۔ میڈم نور جہاں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو ان گیتوں کی فہرست دی جو وہ اس محفل میں گانے جا رہی تھیں۔ ان گیتوں میں ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ بھی شامل تھا۔فیض کے اس باغیانہ گیت کو ایوب خان کے دور اقتدار میں گانا اس کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے نورجہاں کو کہا گیا کہ وہ یہ گیت نہیں گائیں گی، جس پر نورجہاں نے کہا کہ ”اگر میں یہ گیت نہیں گاؤں گی تو میں اس محفل میں بالکل نہیں گاؤں گی۔“ یونیورسٹی کے ایک آفیسر کی طرف سے نورجہاں سے کہا گیا کہ ”تم نہیں جانتیں کہ جنرل ایوب کتنا سخت ہے۔“ اس پرنورجہاں نے کہا کہ ”جاؤ اور اپنے جنرل کو بتاؤ کہ میں اس سے زیادہ سخت ہوں۔ اگر مجھے یہ نظم گانے کی اجازت نہیں تو میں کسی طور نہیں گاؤں گی۔“نورجہاں جب اپنے مؤقف پر ڈٹ گئیں تو یونیورسٹی انتظامیہ کو پیچھے ہٹنا پڑا اور نورجہاں نے محفل میں فیض کی یہ نظم بھی گائی۔ یہ محفل موسیقی ریڈیو پاکستان کے ذریعے پورے پاکستان نے سنی۔ لاہور سے سینکڑوں کلومیٹر دور حیدرآباد کی جیل میں فیض احمد فیض بھی اپنے کچھ دیگر ساتھی قیدیوں کے ہمراہ نورجہاں کو اس محفل میں گاتے سن رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ نورجہاں فیض کی یہ نظم نہیں گائیں گی لیکن جب نورجہاں نے یہ نظم گانی شروع کی تو وہ مبہوت رہ گئے اور نورجہاں کی جرأت کی داد دینے لگے۔ جب نورجہاں نے یہ نظم ختم کی تو ان تمام قیدیوں نے ’زندہ باد نورجہاں‘ کا نعرہ لگا دیا۔ فیض احمد فیض نورجہاں کی اس جرأت سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ بعد ازاں انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ”یہ گیت اب میرا کہاں رہا، یہ گیت اب نورجہاں کا ہو چکا ہے۔“

تازہ ترین