• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرلو کے ثمرات سے پاکستانی کمیونٹی محروم …؟

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
پاکستانیوں کے اندر جہاں بہت سی اچھائیاں اور خوبیاں ہیں وہاں بعض خامیاں بھی ہیں، مثلاً یہ کہ پاکستان کے لوگ دنیا میں اپنی آبادی کے حساب سے سب سے زیادہ چیرٹی (صدقہ/ خیرات) کرتے ہیں مگر وہ دوسری طرف ٹیکس دینے میں ’’ڈنڈی‘‘ (بلکہ ڈنڈا) مار دیتے ہیں۔ آبائی وطن میں سرکاری اور نجی کمپنیوں کے ملازمین ہیں کہ جو ٹیکس ادا کرتے ہیں بلکہ ان کی تنخواہوں سے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ تاہم پرائیویٹ کاروبار کرنے والے اور ان کے ملازمین شاید ہی ٹیکس دیتے ہیںجن کاروباری افراد کو ایف بی آر ٹیکس نیٹ میں لے آتا ہے اور یہ کہ جن کے کاروبار بہت اچھے اور منافع بخش ہوتے ہیں، وہ کسی حد تک ٹیکس ادا کرتے ہیں اور باقی ’’مک مکا‘‘ ہوجاتا ہے مگر یہ کاروباری لوگ صدقہ، خیرات بہت کرتے ہیں، غریبوں کے لیے لنگر لگالیتے ہیں اور بعض براہ راست لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ چونکہ لوگ حکومتوں کے بنائے ہوئے نظام پر اعتماد نہیں کرتے اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ٹیکس دینے کی بجائے براہ راست لوگوں کی مدد کردی جائے، اس سے اللہ بھی خوش ہوگا اور لوگ بھی۔ تاہم انہیں یہ بات بھی سمجھنا ہوگی، کہ ملک اور حکومتوں کا سارا نظام ٹیکسوں پر چلتا ہے، اگر لوگ اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیں گے تو ہسپتال، اسکول اور دوسرے ادارے کیسے بنیں گے؟ ملک ترقی کیسے کرے گا؟ بہت سے پاکستانیوں نے اپنی ان ہی عادات کو یوکے، یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی اپنایا ہوا ہے جو سرکاری یا نجی کمپنیوں کے ملازم ہیں، ان کا ٹیکس تو خود بخود کٹ جاتا ہے، مگر ان ممالک میں پاکستانیوں کی بھاری اکثریت سلف ایمپلائیڈ یعنی ’’اپنا کام‘‘ کرنے والوں کی ہے۔ ان میں دکاندار، قصاب، ریستوران مالکان، ٹیکس اونر والے، ٹیکس ڈرائیور، بلڈ رزاور دوسرے چھوٹے موٹے کام کرنے والے شامل ہیں۔ ان لوگوں کو نیشنل انشورنس کنٹربیوشن کو لازمی ادا کرنا ہوتا ہے، مگر ٹیکس دینے میں یہ لوگ اکثر یہاں بھی ڈنڈی مار دیتے ہیں، چونکہ ان کے ٹیکس کنسلٹنٹس (اکائونٹس) اس نظام سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ بعض اوقات ٹیکس ریٹرنز اس انداز سے بنادیتے ہیں کہ آمدنی کم ظاہر ہوتی ہے اور ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے اکائونٹنٹ اور گاہک دونوں خوش ہوتے ہیں، جبکہ حکومت کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ کم از کم دکاندار اور اس کے ساتھ کام کرنے والے برسر روزگار ہیں۔ البتہ یورپ میں بسنے والے پاکستانیوں، بھارتی، بنگلہ دیشی، سری لنکن اور افریقی باشندوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے کی انہیں کبھی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔؟ ان لوگوں کو کورونا وائرس سے ہونے والے لاک ڈائون کے بعد یہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے اور ستمبر2021ء تک ادا کرنا پڑے گی کیونکہ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد فرلو اسکیم کے تحت سلف ایمپلائیڈ کو ملنے والی امداد کی کیٹگری میں نہیں آتی۔ اسی کیٹگری میں وہی کمپنیاں، دکانیں اور کاروبار آرہے ہیں جنہوں نے اپنی ساری آمدنی ظاہر کی ہوئی تھی اور باقاعدہ پورا ٹیکس دیتے رہے ہیں۔ ان لوگوں کو حکومتی امداد بھی ہزاروں، لاکھوں پونڈز میں مل رہی ہے، مگر پاکستانیوں خصوصاً چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی بڑی تعداد اس سے محروم ہے۔ مقامی انگریز کمیونٹی اور جوپاکستانی اور ایشیائی پورا ٹیکس دیتے رہے ہیں، ان کو مارچ2020ء سے ستمبر2021ء تک پورے پیسے ملتے رہیں گے۔ مجھے میرے کئی دوستوں نے فون کرکے بتایا کہ ان کی آمدنی واقعی بہت کم تھی اس لیے وہ زیادہ ٹیکس نہیں دے سکے۔ اس لیے وہ اس امداد سے بھی محروم ہیں اور مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ برطانوی حکومت تمام پاکستانی اور ایشیائی سلف ایمپلائید کو بلا تخصیص فرلو کی رقم ادا کرے اور اس حوالے سے ٹیکس اور بھاری آمدنی کی شرط ختم کرے۔
تازہ ترین