• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ چیئرمین کا انتخاب، کیا خفیہ رائے شماری پھر کوئی غیرمتوقع نتیجہ دیگی؟

اسلام آباد (طارق بٹ) سینیٹ چیئرمین کا انتخاب، کیا خفیہ رائے شماری پھر کوئی غیرمتوقع نتیجہ دے گی؟ کسی بھی غیرمتوقع نتیجے کے صورت میں ووٹنگ کے طریقہ کار پر بحث پھر شروع ہوجائے گی۔ تفصیلات کے مطابق، سینیٹ انتخابات کے بعد اب چیئرمین سینیٹ کے انتخابات بھی سر پر آپہنچے ہیں۔

موجودہ سینیٹرز 11 مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے نئے سینیٹرز حلف اٹھائیں گے۔ جس کے اگلے روز چیئرمین سینیٹ کے انتخابات ہوں گے۔ یہ حکمران اتحاد اور اپوزیشن الائنس کے درمیان ایک اہم مقابلہ ہوگا۔ دونوں کے سرکاری اعدادوشمار دیکھیں تو پی ڈی ایم کے پاس 53 سینیٹرز ہیں جب کہ حکمران اتحاد کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 47 ہے۔

سینیٹ انتخابات کے بعد ایوان بالا 100 ارکان پر مشتمل ہے۔ ان میں سے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار جو کہ 2018 میں چھ سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تھے، وہ ووٹنگ کے عمل میں شرکت نہیں کرسکیں گے۔ وہ اپنے علاج کے سلسلے میں لندن میں موجود ہیں۔ انہوں نے پاکستان چھوڑنے سے قبل حلف نہیں اٹھایا تھا۔ تاہم، منتخب رکن کے لیے حلف اٹھانے کے لیے کوئی وقت کی قید نہیں ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں اپوزیشن اتحاد کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 52 رہ جائے گی۔

اس کے باوجود انہیں حکمران اتحاد پر 5 ووٹوں کی سبقت حاصل ہوگی۔ سینیٹ چیئرمین کا انتخاب بھی 3 مارچ کے انتخابات کی طرح خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ پانچ ووٹوں کے فرق کی وجہ سے یہاں بھی نتیجہ حیرت انگیز ہوسکتا ہے۔ کسی بھی غیرمتوقع نتیجے کی صورت میں توجہ خفیہ رائے شماری یا اوپن بیلیٹ کے موضوع پر توجہ مرکوز ہوجائے گی۔

پی ٹی آئی نے ہرممکن کوشش کی تھی کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے ہوجائیں تاہم، اس میں سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے طریقہ کار پر بحث شامل نہیں تھی۔ اسی طرح آئین اور الیکشنز ایکٹ 2017 میں مجوزہ ترمیم جو کہ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی اس میں بھی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلیٹ کے ذریعے کروانے کی کوئی تجویز نہیں دی گئی۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جن کی نامزدگی حکمران اتحاد نے کی تھی وہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نمائندے ہیں۔ وہ حکومت کے لیے اس حوالے سے کام کررہے تھے کہ ان کے نامزد ارکان کے لیے انتخاب کی راہ ہموار کی جاسکے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام 2018 میں عمل میں آیا تھا اور وہ ایوان بالا کی چوتھی بڑی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ مشکل وقت میں جب سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تھی اور ان کے حکومت سے اختلافات بھی تھے تو صادق سنجرانی نے سخت محنت کی اور بڑی حد تک کامیاب رہے۔

اپوزیشن نے بھی ان کے خلاف اگست، 2019 میں تحریک عدم اعتماد پیش کی مگر ناکام رہی۔ اس موقع پر اپوزیشن کے 14 سینیٹرز نے اپنے اتحادیوں کو دھوکہ دیا تھا۔ سینیٹ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی پرامید تھی کہ وہ خیبرپختون خوا سے اپنی جماعت کے رکن کو چیئرمین سینیٹ منتخب کروائے گی۔ وہ تنہا فیصلے لینے کے قابل نہیں تھے اور اتحادیوں سے مشاورت کیے بغیر ایسا کرنا چاہتے تھے۔

اب پی ٹی آئی عددی لحاظ سے سرفہرست ہے لیکن وہ تن تنہا چیئرمین سینیٹ منتخب نہیں کرواسکتی۔ اب تک پی ڈی ایم نے یوسف رضا گیلانی کا نام سنجرانی کے خلاف پیش نہیں کیا ہے حالاں کہ ن لیگ اور جے یو آئی (ف) بظاہر اس کی مخالفت نہیں کررہیں۔

انہیں امیدوار بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں میں سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے، وہ اس بات کی مستحق ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا متفقہ امیدوار نامزد کرے۔ سینیٹ میں اپنی خاطر خوا عددی اکثریت کے باوجود پی ٹی آئی کا بڑی حد تک انحصار اپنے اتحادیوں پر ہوگا۔

تازہ ترین