• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دونوں میرے فیورٹ، قابل احترام حالانکہ بالکل مختلف بلکہ متضاد راستوں کے مسافر لیکن کیسا خوب صورت اتفاق ہے کہ دونوں کی منزل ایک تھی یعنی انسانوں کی فلاح و بہبود، آسودگی اور آسانی۔ ایک تھے کارل مارکس اور دوسرے تھے ایڈم سمتھ۔ کارل مارکس کو میں نے اپنے طور پر پڑھنے سمجھنے کی کوشش کی اور نہیں جانتا کہ اس بے حد مشکل آدمی کو سمجھنے میں کتنا کامیاب رہا جبکہ ایڈم سمتھ یونیورسٹی میں ہمیں باقاعدہ پڑھایا گیا۔ مارکس کو پڑھے بغیر بھی اک عالم جانتا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا دشمن تھا جبکہ ایڈم سمتھ نے مشہور زمانہ ''WEALTH OF NATIONS''لکھی جو بنی نوع انسان کیلئے کسی ’’اقتصادی آئین‘‘ کا سا درجہ رکھتی ہے۔

ایڈم سمتھ کے نزدیک ’’لالچ‘‘ صرف منفی ہی نہیں بلکہ مثبت بھی بہت ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ منافع کی خواہش ہی دراصل انسانوں کی اجتماعی خوشحالی کی بنیاد ہے اور زیادہ سے زیادہ دولت مند ہونے سے ہی دوسروں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے کیونکہ جب وسائل، اقتصادی سرگرمی اور سرمایہ کی گردش میں بڑھوتری ہو گی تو اجتماعی خوشحالی میں اضافہ کا یقینی باعث بنے گی۔ انسانی معاشرہ میں سرمایہ داری ہی ترقی کا پہیہ چلا سکتی ہے۔ پیسہ ہی پیسے کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف اگر بھوک ہی بھوک سے بیاہی جائے گی تو ظاہر ہے بھوک ہی پیدا ہو گی۔

امراء زیادہ سے زیادہ کتنی دولت غیر پیداواری اشیاء پر برباد کر سکتے ہیں؟ ان کی زیادہ تر دولت تو ہر صورت، ہر قیمت پر ایسے کاموں پر ہی INVEST ہو گی جس سے مزید دولت جنم لے جس کا مطلب ہے مزید فیکٹریاں، مزید نوکریاں، مزید گاہک، مزید قوت خرید، مزید ایجاد و اختراع، مزید ریسرچ، مزید ایکسپرٹس وغیرہ وغیرہ۔ اس ’’سائیکل‘‘ کو اس سادہ ترین مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جو پہلی کار ڈیٹرائٹ کی سڑکوں پر نمودار ہوئی اس میں نہ دروازے تھے، نہ بریکیں، نہ ہارن، نہ دائیں بائیں پیچھے دیکھنے کیلئے شیشے اور انتہا یہ کہ اولین گاڑی میں تو فیول ٹینک بھی موجود نہ تھا اور شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ اس گاڑی میں سٹیرنگ بھی نہیں تھا فقط ایک ٹی (T) ٹائپ شے تھی جس سے گاڑی کو موڑا جا سکے اور ریورس گیئر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ بہت بے چین و بے قرار ہوتا ہے جو نچلا بیٹھنے کا تصور تک نہیں کر سکتا اور پھر منڈی کا مقابلہ جو ’’آر اینڈ ڈی‘‘ کو جنم دیتا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں کہ آج کی کسی کار کا اس پہلی کار سے موازنہ کچھ یوں ہی ہے جیسے آج کے کسی مہذب، خوش لباس، جہاز اڑاتے ہوئے آدمی کا مقابلہ کسی بندر یا بن مانس سے کر دیا جائے۔

سرمایہ کاری کے نتیجہ میں جب منافع بڑھتا ہے تو اسے حاصل کرنے والا کسی سیاستدان، چور ڈاکو کی طرح اس منافع کو کسی خفیہ جگہ پر چھپاتا نہیں بلکہ REINVEST کر کے بڑھاتا اور پھیلاتا ہے، کوئی نیا پراجیکٹ شروع کر کے ان گنت نئے امکانات اور مواقع کو جنم دیتا ہے۔ اس نئے اقتصادی آئین کی روح یہ ہے کہ۔۔۔’’پیداوار سے پیدا ہونے والے منافع کو دوبارہ پیداوار میں اضافہ کیلئے لگانا اس کی بنیادی ضرورت ہے۔‘‘ سرمایہ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ حرکت، گردش میں نہ رہے تو یہ پھٹنا، گلنا سڑنا شروع ہو کر خود اپنے آپ کو کھانے نگلنے لگتا ہے۔ صرف وہ سرمایہ قابل مذمت ہے جو منجمد کر دیا جاتا ہے، زیر زمین چھپا دیا جاتا ہے یا دریائوں سمندروں میں غرق ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اس پودے کی مانند ہوتا ہے جو نہ چھائوں دیتا ہے نہ پھل پھول اس کے نصیب میں ہوتے ہیں۔ سرمایہ تو وہ ہے جو رقص میں رہتا ہے۔ کبھی ملوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں۔۔۔ کبھی زمینوں کے اندر کبھی آسمانوں میں، کبھی تحقیقات تو کبھی ایجادات، کبھی آلات کبھی دوائوں تو کبھی غذائوں کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ کیا کبھی کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ گوشت کے بغیر گوشت منڈیوں میں دستیاب ہو گا، فی ایکڑ پیداوار میں محیر العقول اضافے ہوں گے اور مرغیاں انڈے اس تعداد و مقدار میں اربوں انسانوں کی ضروریات پوری کر رہے ہوں گے۔

جدید دنیا کے سرمایہ دار کوئی حرام خور جاگیردار، منصب دار، چور چکار نہیں بلکہ بیشتر انتہائی ذہین، محنتی، تخلیق کار ہیں جن کے پاس تقریبات کیلئے بھی وقت نہیں ہوتا اور ملکوں کے سربراہوں پر بھاری ہوتے ہیں جن کا آنا جانا لگا رہتاہے۔ بل کلنٹن، براک اوبامہ کب کے تشریفات لے جا چکے جبکہ بل گیٹس آج بھی موجود ہے اور بیشمار فلاحی کاموں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ یہ ’’اقتصادی عقیدہ‘‘ نت نئے علوم کے دروازے کھول رہا ہے، نت نئی دنیائوں کی دہلیزوں پہ کھڑا ہے۔ ساری جدید سائنس اسی سرمایہ کی مرہون منت ہے۔

کیا بھیڑیوں کا کوئی ایسا ’’معاشرہ‘‘ ممکن ہے جو بھیڑوں، بکریوں، دنبوں، میمنوں کی ہمیشہ فراہمی بلکہ فراوانی کو یقینی بنا رہا ہو۔ بائیو ٹیکنالوجی سے لے کر نینو ٹیکنالوجی تک کے پیچھے لیبارٹریاں ہیں جن کے پیچھے سرمایہ ہے اور ہم آج بھی اس پر سردھن رہے ہیں کہ ’’لالچ بری بلا ہے‘‘ حالانکہ ’’لالچ‘‘ کی تعریف تبدیل ہوئے مدتیں بیت چکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین