• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسم کے کچھ اعضا انتہائی اہم کام سرانجام دیتے ہیں جن میں سے ایک، گردے ہیں۔ گردوں کی صحت اور ان کی اہمیت اُجاگر کرنے اور لوگوں کو اس کے امراض سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر میں مارچ کے دوسرے ہفتے میں جمعرات کے روز گردوں کا عالمی دن (World Kidney Day)منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 2006ء میں کیا گیا، جس میں دنیا بھر کے ممالک میں مختلف تقریبات اور سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں طبی ماہرین گردوں کے امراض اور ان کی حفاظت سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں۔ 

یہ ایک بین الاقوامی مہم ہے جس کا مقصد مجموعی صحت کے حوالے سے گردوں کی اہمیت اور گردوں کی بیماری اور ان سے منسلک صحت کے مسائل سے متعلق اثرات کو کم کرنے کے لیے عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔ رواں سال گردوں کے عالمی دن کا موضوع ہے، ’’گردوں کی صحت ہر جگہ ہر ایک کیلئے: گردوں کی بیماری کے ساتھ اچھی طرح زندگی گزارنا‘‘، جس کے تحت گردوں کے مرض میں مبتلا مریضوں کی زندگی کی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 85کروڑ افراد گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔ گردے کی بیماری کے مریض ڈائیلیسس اور گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹیشن) پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد افراد گردوں کے امراض کا شکار ہیں، جن میں گردوں کی دائمی بیماری (کرونک کڈنی ڈیزیز) اور گردے میں پتھری قابل ذکر ہیں۔ گردوں میں خرابی کی کئی وجوہات ہیں، جن میںٹائپ 1اور ٹائپ 2ذیابطیس، ہائی بلڈپریشر، دل اور خون کی شریانوں سے متعلق بیماریاں، موروثی گردوں کی بیماری اور موٹاپے جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

افعال

ایک صحت مند نوجوان مرد کے گردوں کی لمبائی 11سینٹی میٹر جبکہ ایک صحت مند لڑکی کے گردوں کی لمبائی 10سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ گردوں کا اہم فعل انسانی جسم میں موجود خون کو صاف کرنا ہوتا ہے۔ گردوں سے روزانہ 24گھنٹوں کے دوران 1500لیٹر خون گزرتا ہے۔ 

گردے میں موجود باریک نالیاں اور جالی دار کپ خون کو چھاننے کے بعد صاف خون کوانسانی جسم میں دوبارہ شامل کردیتے ہیں۔ فلٹر ہونے کے دوران خون میں موجود زائد نمکیات اور پانی پیشاب کی شکل میں انسانی جسم سے باہر خارج ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی بھی ایک گردے کی کارکردگی متاثر ہوجائےتو انسان کی زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

کرونک کڈنی ڈیزیز

گردوں کی جان لیوا بیماری کرونک کڈنی ڈیزیز (CKD)کا مطلب گردے خراب ہوجانا ہے اور ان کی انسان کو صحت مند رکھنے کی صلاحیت میں کمی آتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال دنیا میں کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس سے ہونے والی اموات کی تعداد بریسٹ اور پروسٹیٹ کے کینسر سے زیادہ ہے۔ ہر 10میں سے ایک شخص کو کرونک کڈنی ڈیزیز لاحق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2040ء تک دنیا بھر میں طبی اموات کی یہ پانچویں بڑی بیماری ہوگی۔ 

اس بیماری کے ہونے کی بڑی وجہ بلندفشار خون اور ذیابطیس کی بیماریاں ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں زیادہ تر لوگوں میں اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن جیسے جیسے خرابی بڑھتی جاتی ہے تو خون میں خرابی ہونا شروع ہوجاتی ہے جس سے انسان بیمار ہوجاتا ہے۔ 

اس کے نتیجے میں خون کی کمی، ہڈیوں کی کمزوری، ناقص غذائی صحت اور اعصابی نقصان جیسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بیماری دل اور خون کی نالیوں کے امراض کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔ ایک بار گردے کام کرنا چھوڑ دیں تو پھر ڈائیلیسس یا گردے کی پیوند کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ کرونک کڈنی ڈیزیز کی تشخیص اگر ابتدا میں ہی ہوجائے تو علاج کے ذریعے گردوں کی خرابی کو روکا یا اس عمل کو سست کیا جاسکتا ہے۔ ابتدائی علاج میں غذا، ورزش، دوائیں، طرزِ زندگی میں تبدیلی اور ذیابطیس و ہائی بلڈ پریشر جیسے خطرے والے عوامل کا علاج شامل ہے۔

ایکیوٹ کڈنی انجری

ایکیوٹ کڈنی انجری(AKI) کو ایکیوٹ رینل فیلئیر(ARF) بھی کہتے ہیں۔ اس میں گردے اچانک کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا گردوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ایسا چند گھنٹوں یا چند دن میں ہوتا ہے۔ اس میں خون میں خرابی پیدا کرنے والے عناصر بننا شروع ہوجاتے ہیں، جس سے گردوں کے لیے جسم میں سیال (fluid)کا درست توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 

ایسا عام طور پر کسی دوسری سنگین بیماری کی پیچیدگی کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اپنے نام کے برخلاف یہ بیماری گردوں میں کوئی چیز لگنے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔ ایکیوٹ کڈنی انجری دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب افراد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔اس بیماری میں85فیصد نچلے اور درمیانی طبقے کے افراد مبتلا ہوتے ہیں۔

گردے کے امراض اور کووِڈ-19

جن افراد کو گردوں کی کوئی بیماری ہے یا وہ گردے کی پیوند کاری کرواچکے ہیں ان کو کووِڈ-19سے سنگین پیچیدگیاں پیدا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ڈائیلیسس کروانے والے مریضوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوسکتا ہے، جس کے باعث انفیکشن سے لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ایسے مریض باقاعدگی سے طے شدہ وقت پر ڈائیلیسس جاری رکھتے ہوئے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ گردے کی پیوند کاری کروانے والے افراد کو اینٹی ریجیکشن (امیونوسوپریسی) دوائیں لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

یہ دوائیں مدافعتی نظام کو کم فعال رکھ کر کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انفیکشن سے لڑنا مشکل ہوسکتا ہے۔ تاہم، ان ادویات کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھ دھونا، اچھی حفظان صحت کو برقرار رکھنا اور اپنے معالج کی ہدایات پر عمل کرنا بھی اہم ہے۔

احتیاط

گردوں کو صحت مند رکھنے کے لیے روزمرہ خوراک میں نمک کا استعمال کم کریں یعنی دن بھر میں 5سے6گرام نمک کھائیں۔ باہر کے کھانوں بالخصوص جنک فوڈز کھانے کے بجائے گھر کے بنے کھانوں کو فوقیت دیں کیونکہ وزن کا بڑھنا بھی گردوں کی خرابی کی وجہ بن سکتا ہے۔ تمبا کو نوشی ترک کریں اور زیادہ سے زیادہ پانی کا پینا یقینی بنائیں۔ 

ماہرین ایک بالغ انسان کے لیے روزانہ 2 سے 4لیٹر پانی پینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے پیشاب میں پتھری بنانے والے منرلز(زیادہ تر کیلشیم اوکزیلیٹ پر مشتمل ہوتے ہیں) کو خارج ہونے میں مدد ملتی ہے، یہی منرلز کم پانی پینے کی وجہ سے گردے میں جمع ہوکر پتھری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

تازہ ترین