• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک صفحے کی کہانی سے ذرا آگئے بڑھیے تو آپ دیکھیں گے کہ اُڑتی چڑیا کے پَر گننے والے تجربہ کار بزرگوں نے جس پرندے کے لئے جال بچھایا تھا آج وہی پرندہ بے بسی کے عالم میں ان کے جال میں آگرا ہے۔ اب پَر کُترے پرندے کی پھڑ پھڑاہٹ ہے اور جال سے نکل کر ایک بار پھر کھلی فضاؤں میں اُڑان بھرنے کی خواہش کیا اسے آزادی کی نوید سنائے گی یا پھر زندگی اسی دشت کی سیاحی میں گزر جائے گی؟ فی الحال تو اُونچی اُڑان کا یہ نایاب پرندہ بے بس بھی ہے اور لاچار بھی۔

دستورِ زمانہ بھی یہی ہے کہ جب کوئی پرندہ بے پرواہی میں، بے خوف اُونچی اُڑان بھرتا ہے تو کسی نہ کسی دن بھوک پیاس کی شدت سے اوندھے منہ زمین پر بھی آگرتا ہے۔ غول کی شکل میں اُڑان بھرنے والے پرندے کبھی پرواز میںکوتاہی نہیں برتتے، راستہ بھٹکتے بھی ہیں تو کسی نہ کسی صورت اپنی ڈار میں واپس آ کر شکاریوں کے جال سے محفوظ بھی ہو جاتے ہیں۔

سینیٹ کی شکارگاہ کا یہ منظر بڑا واضح ہے لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی، کپتان دلیر بھی ہے ،نڈر اور بے باک بھی۔ وہ ایسی صورت حال سے پہلی بار دوچار نہیں ہوا۔ کرکٹ ہو یا سیاست کا میدان، اسے ہمیشہ بحرانوں کا سامنا رہا ہے۔ وہ ان چیلنجوں سے نکلنا بخوبی جانتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ کس حد تک جا سکتا ہے۔

یہ الگ بات کہ اسے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی مرکزی سیٹ پر سب سے مرکزی کھلاڑی کے رن آؤٹ ہونے کا شدید رنج ہے، اسے ٹیم کے اندر سازشوں کاادراک بھی ہے اوروہ ایسی سازشوں کا اپنے کرکٹ کیریئر کے دوران بھی سامنا کرتا رہا ہے اور سیاسی کیریئر میں توکچھ زیادہ ہی کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کپتان کبھی شکست تسلیم نہیں کرتا۔

آخری گیند تک لڑنا جانتا ہے۔ وہ کسی سے سمجھوتہ کرنے کا قائل نہیں ، اسے جب بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک نئے انداز میں ابھر کر سامنے آیا ۔ وہ اپنے انداز میں سوچتا ہے اور اسی منصوبے پر عمل کرتا ہے جو اسے صحیح محسو س ہو۔ میرے کپتان کی منطق بالکل الگ ہے۔ وہ دشمن کو دشمن ہی کے ہتھیار سے شکست دینے کی حکمت عملی پر عمل کرکے ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب اسے کرکٹ کیریئر کے دوران اپنی ہی ٹیم کے ایسے کھلاڑیوں کا انکشاف ہوا کہ وہ اپنی ہار پر پیسہ لگاتے ہیں تو میرے کپتان نے یہی فارمولا ایجاد کیا کہ اپنی فتح پر پیسہ لگاؤ ہار پر نہیں۔ پھر آپ نے دیکھا کہ میرے کپتان نے 1992میں کرکٹ کا عالمی تاج پاکستان کے سر پر سجایا اور دنیا بھر میں شہرہ پایا لیکن جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے موجودہ صور ت حال پر کیا خوب صورت تبصرہ کیا ہے کہ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے۔

کرکٹ میں باؤلر گیند کو تھوک صرف اس لئے لگاتا ہے کہ گیند میں چمک پیدا ہو ، گیند سوئنگ کرے اور باؤلر کی مرضی سے گھومے، عمران خان بھی ایک کامیاب باؤلر رہے ہیں، ورلڈ کپ جیتے ہیں، بڑی بڑی وکٹیں گرائی ہیں لیکن وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ ایسے ہی کام چلا لیں گے حقیقت یہ ہے کہ گیندتھوک لگانے سے ضرور گھومتی ہے لیکن ملک ایسےنہیں چلتے۔ ملک چلانے کے لئے اہلیت چاہئے، دیانت چاہئے، سب سے اہم یہ ہے کہ ایک بہترین ٹیم چاہئے۔

آج تحریک انصاف کے منتخب نمائندے حکومت کی ناقص پالیسیوں، ہوش ربا مہنگائی، بےروزگاری، اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے باعث شدید عوامی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ کسی بھی محفل میں عوام کی تنقید کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

اسی عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک جو اپنے ابتدائی مرحلے میں عوامی مقبولیت تو حاصل نہ کرسکی لیکن سینیٹ انتخابات میںکامیاب ہوگئی۔ خان اعظم الیکشن کمیشن سے لاکھ شکوے شکایتیں کریں، الزامات لگائیں لیکن اپنی کوتاہیوں پر ایک نظر ڈالیں کہ گزشتہ تقریباً تین سال میں آپ نے کیا کھویا کیا پایا؟ جہاں تک ضمیر فروش اراکین اسمبلی کا تعلق ہے تو ہماری تاریخ کی ایک ایک سطر پر ان کے نام لکھے پڑھے جاسکتے ہیں۔ ان کے ضمیر مفادات کے تابع جاگتے سوتے ہیں۔

تحریک انصاف میں ان ضمیر فروشوں کی بھرمار ہے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی اس میدان میں کسی سے کم نہیں۔ اس دھندے میں کبھی چھانگا مانگا تو کبھی مری میں منڈیاں سجائی جاتی رہی ہیں اور حالیہ سینیٹ انتخابات میں کراچی کے پنچ تارے ہوٹلوں کے نام بھی زبان زد ِ عام ہیں۔

خان اعظم اگر ضمیر فروشوں کا مستقل ناطقہ بند کرنا چاہتے تھے تو پھر اداروں کو متنازعہ بنانے کے بجائے بطور پارٹی سربراہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے تحریک انصاف میں موجود ضمیر فروشوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کرتے ، انہیں پارٹی کی مستقل رکنیت سے فارغ کرکے آئندہ کسی بھی سطح پر انتخاب لڑنے پر پابندی لگاتے اور ان کو عوام کے سامنے بے نقاب کرتے۔

یہ کیسی عجیب منطق ہے کہ خان اعظم اپنی ہی آستین میں چھپے پندرہ سولہ ضمیر فروشوں پر بکنے کا الزام تو لگاتے ہیں لیکن انہی کے ووٹوں سے دوبارہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی لیتے ہیں۔ اقتدار بچانے کا یہ کھیل ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہی لوگ بقول مریم بی بی ن لیگ کے ٹکٹ پر آئندہ انتخاب لڑنے کیلئے تیار ہیں اور بی بی کہتی ہیں کہ پیسہ نہیں ن لیگ کا ٹکٹ چلا ہے۔ واہ ضمیر فروشی تیرا ہی آسرا۔

ضمیر فروشی کا قصہ مختصر کرتے ہوئے بتاتے چلیں کہ خان اعظم کی مدد کو ریسکیو 1122والے پرویز الٰہی اور چودھری نثار پنجاب میں مدد کو آرہے ہیںجبکہ مونس الٰہی وفاقی وزیر بنائے جارہے ہیں۔

تازہ ترین