• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ دھرتی کے انقلابی شاعر شیخ ایاز کے 98ویں جنم دن کے موقع پر محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام تقریب

رپورٹ و تصاویر:

سید مطلوب حسین

صوبائی محکمہ ثقافت کی جانب سے 2؍مارچ کو سندھ کے انقلابی شاعر شیخ ایاز کی 98ویں سالگرہ منائی گئی ۔ اس سلسلے میں آرٹس کونسل پاکستان میں تقریب کا انعقاد ہوا، جس کی صدارت صوبائی وزیر ثقافت ،سیاحت و نواردات سید سردار علی شاہ نے کی۔ ملک کے نامور شعرائےکرام، ادباء نے 20ویں صدی کے انقلابی شاعر ، شیخ ایاز کومنظوم خراج عقیدت پیش کیا، ممتاز دانش وروں نے ان کی شخصیت کے حوالے سے مقالے پڑھے جب کہ لوک گلوکاروں نے ان کا کلام گیتوں کی صورت میں گایا۔ 

مقررین کی جانب سے ان کے تخلیقی کام کو وادی مہران کی تاریخ کا بے مثال اور انمول باب قرار دیا گیا۔ اس موقع پر محکمہ ثقاقت کی جانب سے شیخ ایاز کی زندگی ، شکارپور سے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے،وکالت کے پیشےسے ان کی وابستگی اور شعر و ادب سے ان کے تعلق کی عکاسی کرنے کے لیےدستاویز ی فلم دکھائی گئی، جسے شرکائے تقریب نے بے حد پسند کیا۔ 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ شیخ ایاز کےتذکرے کے بغیر جدید سندھ کا تصورنا ممکن ہے۔صوبائی وزیر نے کہا کہ انہوں نے محکمہ ثقافت کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ سندھ سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کا صرف جنم دن عزت و احترام کے ساتھ منایا کریں، یوم وفات غم کا دن ہوتا ہے، اس لیے اسے سادگی سے منانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز روایت شکن اور انقلابی انسان تھے۔ اُن کی پوری شاعری میں روایتوں سے بغاوت کی عکاسی کی گئی ہے ۔ 

انہوں نے اپنے کلام میں جدید سندھ کے تصور کوپروان چڑھایا۔ اس موقع پر انہوںنے شیخ ایاز کے چند اشعار پڑھ کر سنائے۔ شیخ ایازکےحالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی پہلی نظم 1938 میں صرف چودہ برس کی عمر میں شکارپور سے نکلنے والے رسالے ’سدرشن‘ میں شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ ایاز ،جن دنوں سی اینڈ سی کالج شکار پور میں زیر تعلیم تھے، اس وقت ہندو مسلم’’ ایکتا‘‘ کی تحریک جاری تھی۔ اس تحریک کو موثر بنانے کے لیے ناٹک منڈلیاں ڈرامےپیش کرتی تھیں۔ 

تب شکار پور سے بچوں کےمختلف جریدوں کا بھی اجراء ہوتا تھا۔ شیخ ایاز نے سنہ 1940 میں بی اے کرنے کے لیے ڈی جے سائنس کالج کراچی میں داخلہ لیا۔ یہاں وہ بائیں بازو کے نظریات کے حامی ادیبوں اور سیاست دانوں، سوبھو گیان چندانی ، گوبند مالھی، ابراہیم جویو اور قوم پرست نظریے کے بانی حشو کیولرانی کی صحبت میں رہے۔

اس موقع پر انہوں نے شیخ ایازکی بائیو گرافی سے اقتباس پڑھ کر سنایا کہ’’ کامریڈ سوبھو گیان چندانی ایک مرتبہ انھیں نشاط سینما کے قریب مقیم، کمیونسٹ رہنما آئی کے گجرال (جو بعد میں ہندوستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے) کے پاس لے گئے اور تعارف کرواتے ہوئے کہا’’ ان سے ملیے، یہ ہیں ہمارے سرخ شاعر‘‘۔ یہ سن کر گجرال نے شیخ ایاز سے کہا ، ’’کمجھے کوئی سندھی نظم سناؤ تاکہ میں اس کی روانی اور موسیقیت کا اندازہ لگا سکوں‘‘۔شیخ ایاز نے بتایا کہ ’’ میں نے اپنی نظم ’’ ’او باغی او راج دروہی‘‘ سنائی تووہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ’’ تم شاعری میں چندر شیکھر آزاد ہو‘‘۔

’’واضح رہے کہ چندر شیکھر،حریت پسند رہنما ،بھگت سنگھ کے ساتھی اور انقلابی رہنما تھے‘‘۔ سردار شاہ نے مزید کہا کہ شیخ ایاز پوری دنیا کے ادب میں دلچسپی رکھتے تھےاور ان کا مطالعہ بے حدوسیع تھا۔ انہیں ترکی، مصر,ہندستان کےزیادہ تر شعراء کا کلام ازبرتھا۔ انہوں نے کہ ادبی و سیاسی رہنمائی کے لیےانہیں، کہیل داس اور ہشو کیولرانی جیسے استاد ملے تھے ۔ شیخ ایاز نے 37 تصنیفات تخلیق کیں جن میں شاعری کے گوناگوں پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا تھا۔

نام ور قلم کار، حارث خلیق نے شیخ ایاز کی ادبی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ عہدساز شاعر تھے، انہیں عالمی مزاحمتی ادب سے شناسائی تھی جب کہ سندھ دھرتی پر ہونے والے مظالم کے خلاف وہ ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے۔ انہوں نے اس دور کے بعض شاعروں کی طرف سے کانگو میں ہونے والے مظالم کو اپنی نظموں میں اجاگر کرنے کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سندھ دھرتی میں آپ کے بھائیوں پر ظلم و تشدد کیا جارہا ہے اور آپ کو ہزاروں میل دور واقع افریقی ملک کے لوگوں کی فکرلاحق ہے ۔ حارث خلیق نے شیخ ایاز کی نظموں کے چند اشعار پڑھ کر سنائے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ اردو ادب میں شیخ ایاز کی اردو شاعری کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ نامور ادیب جامی چانڈیو نے کہا کہ شیخ ایاز جہاں کلاسیکل دور کا تسلسل تھے، وہیں انہوں نے روایتی شاعری اور موضوعات سےانحراف کرتے ہوئے علم بغاوت بلند کیا۔ شیخ ایاز نے قدیم سندھی، سنسکرت اور ابتدائی دور کی اردوزبان کو اپنی شاعری میں پرویا۔ وہ اگر تصوف کے داعی تھے تو جدیدیت اور باغیانہ فکر کے امام اور شاعر انقلاب بھی ہیں۔

شیخ ایاز جہاں میراں جی اور بھگت کبیر کے گیتوں سے متاثر تھے وہیں وہ مغربی ادب کے تمام اسلوب سے بھی بخوبی واقف تھے.۔ پہلے سیشن کے اختتام پر صوبائی وزیر نے اعلان کیا کہ محکمہ ثقافت کی طرف سے موئن جو دڑو کےصدسالہ جشن کی تقاریب کے سلسلے میں اپریل میں کراچی پورٹ ٹرسٹ گراؤنڈ میں سندھ تہذیب اور موئن جو دڑوکی تاریخ کو روشناس کرانے کے لیے’’ لاہوتی فیسٹیول ‘‘منعقد کیا جائے گا جس میں تبت سے لے کر ننگرپارکر تک ،سندھ دریا کے دونوں کناروں کی موسیقی کے سروں کا جادو جگایا جائے گا۔

دوسرے سیشن میں شیخ ایاز کی ادبی خدمات کے بارے میں تین کتابوں کی رونمائی ہوئی ،جن میں ڈاکٹر اسحاق سمیجو کی کتاب "شیخ ایاز جی شاعری", ڈاکٹر فیاض لطیف کی کتاب "سائو کے سجان"اور نور احمد جنجھی کی کتاب "تھراور ایاز" شامل ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر انور فگار ھکڑو اور نامور ادیب شوکت حسین شورو،کشور ناہید، نورالہدیٰ شاہ، مجاہد بریلوی، وسعت اللہ خان اور عرفانہ ملاح اور امرسندھو نے اپنے خیالات کا اظہا کیا۔ 

بعدازاں محفل موسیقی کا پروگرام منعقد ہوا،جس میں نامور گلوکاروں دیبا سحر، سجن سندھی اور شفیع فقیر نے شیخ ایاز کی نظموں کو گیتوں کی صورت میں پیش کیا۔ پروگرام کے اختتام پر محکمہ ثقافت کے ڈائریکٹر جنرل جانب علیم لاشاری نے لوک فن کاروں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اجرک اور پھولوں کے گل دستے پیش کیےگئے۔

تازہ ترین