• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں بسنت کا تہوار کبھی بڑے اچھے اور خوبصورت انداز میں منایا جاتا تھا۔ مجال ہے کہ آج سے پچاس ساٹھ برس قبل کسی نے سنا ہو کہ ڈور کی وجہ سے کسی کی گردن کٹ گئی اور وہ زندگی ہار گیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ پچاس ساٹھ برس قبل لاہور میں موٹر سائیکلیں کہاں تھیں؟ دوسری جنگِ عظیم میں استعمال ہونے والی عظیم الجثہ موٹر سائیکل ہوتی تھی جو کم از کم سات آٹھ فٹ لمبی ہوتی تھی۔ فوج کے پاس بھی وہی موٹر سائیکل تھی۔ لاہور میں اس زمانے میں زیادہ تر سائیکلیں ہوتی تھیں بلکہ ہمیں یاد ہے کہ ایک بینک نے سائیکل قرضہ اسکیم شروع کی تھی اور چند روپے ماہانہ قسط پر سائیکل دی جاتی تھی، لاہور شہر میں کئی ایسی دکانیں تھیں جہاں قسطوں پر سائیکلیں ملا کرتی تھیں۔ اب تو لاہور شہر کی ہر گلی میں موٹر سائیکل قسطوں پر ملتی ہے جس کی وجہ سے پورا لاہور شہر ہی بے ہنگم ٹریفک کا شکار ہو چکا ہے جبکہ سب سے زیادہ حادثات موٹر سائیکلوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ لاہور شہر میں جب تانگے چلا کرتے تھے،سائیکل عوامی سواری تھی تو یقین کریں کہ شاذونادر ہی حادثے کی خبر آتی تھی وہ بھی کسی موٹر کار کے حادثے کی۔

سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی میں بستر خالی ہوتے تھے۔ سوائے ان لوگوں کے جو کسی بیماری کی وجہ سے ایمرجنسی میں آتے تھے۔ شہریوں کی صحت قابل رشک تھی۔ دودھ، دہی کی دکانوں سے خالص دودھ کی خوشبو دور سے آیا کرتی تھی۔ پیڑے والی لسی، ملائی والا دودھ کیا زمانہ تھا؟ بے شک راوی کنارے نیا لاہور بسا لیں مگر وہ لاہور.....وہ تاریخی لاہور کبھی واپس نہیں آ سکے گا۔ اس تاریخی لاہور کو لاہوریوںاور باہر سے آنے والوں نے مل کر تباہ کر دیا۔ لو جی ہم بسنت کی بات کر رہے تھے۔ شاہی محلہ میں جہاں پر ڈینٹل کالج اور ڈینٹل اسپتال ہے، دی مونٹ مورینسی کالج آف ڈینٹسٹری اور پنجاب ڈینٹل اسپتال ہے یہاں کبھی برگد کے بڑے بڑے تناور درخت ہوا کرتے تھے۔ اب ایک دو درخت ہی رہ گئے ہیں بلکہ جہاں خطیب بادشاہی مسجد کا سرکاری گھر ہے وہاں کبھی بہت درخت ہوتے تھے۔ اس گھر میں موجودہ خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد (موجودہ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی) کے والد مولانا عبدالقادر آزاد بھی رہتے تھے‘ وہ بھی شاہی مسجد کے خطیب تھے۔ یہ کالج اور اسپتال پنجاب کے ایک انگریز گورنر کی اہلیہ کے دانت میں درد کے علاج کے لئے قائم کیا گیا تھا۔

اس علاقے میں کبھی بڑا کھلا میدان ہوتا تھا جہاں گجر اپنی گائیں بھینسیں لے کر ٹھہرا کرتے تھے اور پتنگوں کے پیچ لڑایا کرتے تھے۔ انہیں پنجابی زبان میں ’’ضدیں‘‘ کہتے ہیں۔ لاہور میں پتنگیں، گڈیاں اور پری بھی اڑائی جاتی تھیں۔ لاہور میں کبھی پاپا گڈی فروش، باقر گڈی فروش وغیرہ بڑے مشہور تھے۔ ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں یہ ضدیں منٹو پارک (اقبال پارک) میں دیکھی ہیں۔ یہ ایک طرح کے پتنگوں کے ٹورنامنٹ تھے اور خاصی تعداد میں لوگ یہ دیکھنے آتے تھے۔ یہیں پر پہلوانوں کا ایک اکھاڑہ تھا۔ جہاں نئے نئے پہلوان بھی تیار کئے جاتے تھے اور اکھاڑے کے احاطے میں ایک طرف بیڈ منٹن کا نیٹ بھی لگا ہوتا تھا۔ اس منٹو پارک میں کہیں بچے کھیل رہے ہوتے تھے۔ کہیں کرکٹ میچ ہو رہا ہوتا تھا۔ منٹو پارک میں تیراکی کا ایک سرکاری تالاب بھی ہوتا تھا۔ پتہ نہیں اب کس حال میں ہے۔ بسنت میں پیچ لڑانے کے لئے استادوں کو بلایا جاتا تھا۔ اندرون شہر لائوڈ اسپیکر پر محمد رفیع کا یہ گانا بجایا جاتا تھا،

؎ چلی چلی رے پتنگ میری چلی رے

یہ گانا بڑا سنا جاتا تھا۔ پھر بسنت میں یہ خرابی پیدا ہوئی کہ مجرے بھی شروع ہو گئے۔ ہوائی فائرنگ، شرطیں اور جوا تک ہونے لگا اور آخر میں جب بسنت سے لوگ مرنے لگے تو بسنت پر پابندی لگ گئی۔ سکھ گوردارہ گورو مانگٹ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں بسنت بڑے بھرپور طریقے سے منائی جاتی تھی‘ شاہی قلعہ سے شالامار باغ تک سرسوں کے کھیت تھے۔ مہاراجہ اور درباری زرد رنگ کے کپڑے پہن کر بسنت کا تہوار مناتے تھے۔

ہم تقریباً روزانہ ہی یہاں مسلم ماڈل اسکول کے ایک استاد نور محمد صاحب کے ساتھ بیڈ منٹن کھیلنے جاتے تھے۔ ان کا گھر کوچہ فقیر خانہ میں تھا۔ ہم ٹیپ روڈ سے پیدل چل کر بھاٹی گیٹ اور وہاں سے شاہی محلے سے ہوتے ہوئے بادشاہی مسجد اور پھر منٹو پارک جایا کرتے تھے۔ وہیں ایک بٹ صاحب کا باڈی بلڈنگ کا کلب تھا۔ کوئی لاری اڈے کا شور اور گردوغبار نہ تھا۔ منٹو پارک کی فضا بڑی صاف ستھری اور ٹھنڈک والی تھی۔

لاہور میں آج بھی بے شمار اولیاء کرام کے عرس بڑے زور دار طریقے سے منائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا عرس حضرت علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش، اس کے بعد حضرت میاں میرؒ، حضرت شاہ جمالؒ اور حضرت مادھو لال حسینؒ کے عرس ہوتے ہیں۔ خیر اب تو بہت سےخود ساختہ پیروں کے عرس بھی ہوتے ہیں بلکہ اب تو بعض زندہ پیر بھی عرس کرا رہے ہیں۔ پرانے لاہور میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔ حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک پر کبھی سال میں چار میلے لگا کرتے تھے۔ اب صرف ایک عرس ہوتا ہے۔ کہیں مرغ لڑائے جا رہے ہیں، کہیں تیراندازی، کہیں کتوبر بازی، بٹیر بازی تو کہیں مینڈھوں کی ٹکریں کرائی جا رہی ہیں۔ کبڈی اور گلی ڈنڈا کے ٹورنامنٹ بلکہ کسی زمانے میں کتوں کی بھی لڑائی کرائی جاتی تھی۔

لاہوریوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ سڑک کنارے بیٹھے ہوئے مختلف ادویات فروخت کرنے والے کے پاس گھنٹوں بیٹھنا ہوا کرتا تھا۔ بندر اور ریچھ کا تماشا دیکھنا۔ طوطے کے ذریعے فال نکلوانا، قسمت کا حال جاننا، لاہور کبھی واقعی زندہ دلوں کا شہر تھا۔ اب یہ شہر ایسے لوگوں کا شہر بن چکا ہے جنہیں مال روڈ کی خوشبو، لارنس گارڈن کی خوبصورتی، قدیم عمارتوں اور تاریخی فن تعمیر سے کوئی دلچسپی نہیں۔

(جاری ہے)

تازہ ترین