• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے تو اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے تھے اور یہ پل غلط بھی نہیں باندھے تھے کہ اس نے کتاب اور کتاب والوں کی عزت ،وقعت اور قدرو قیمت بڑھانے کے لئے جو دن رات ایک کر دیئے تھے وہ اس سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے ۔ مگر اب سنا ہے کہ اس نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ اور یہ استعفیٰ یہ سوچ کر دیا ہے کہ جس جماعت کی حکومت نے اسے اس منصب پر بٹھایا تھا وہ الیکشن ہار گئی ہے اور اس کے خیال میں چونکہ نئی حکومت اس کی جگہ اپنی پسند کے کسی شخص کو ہی لائے گی اس لئے وہ راستے کی رکاوٹ کیوں بنے ۔بات دل کو لگتی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور یہ صرف سرکاری افسروں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا بلکہ علمی اور ادبی اداروں کے سر براہوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو تا ہے ۔ جو بھی نئی حکومت آتی ہے سب سے پہلے سرکاری افسروں کی اکھاڑ پچھاڑ کرتی ہے ۔اس کی زد میں علمی وفنی اور ادبی اداروں کے سر براہ بھی آ جا تے ہیں ۔ اپنے مظہر الا سلام نے بھی یہی سوچا کہ بجائے اس کے کہ نئی حکومت اسے سبکدوش کرے وہ اپنے کاندھوں کا بوجھ خود ہی کیوں نہ اتار پھینکے۔لیکن ہمارے خیال میں اسے تھوڑا صبر کر لینا چاہئے تھا ۔شاید اب ایسا نہ ہو ۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کو اس نے جس مقام پر پہنچادیا ہے اس سے پہلے اس کے کسی بھی سر براہ کو اس کی توفیق نہیں ہوئی۔ یہ فاؤنڈیشن ذوالفقار علی بھٹو نے ایک خاص مقصد کے لئے بنائی تھی۔ انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کی کتابیں باہر سے در آمد کی جاتی تھیں۔ یہ کتابیں اتنی مہنگی ہوتی تھیں کہ عام طالب علم وہ قیمت برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔ ایک دوسرے کی فوٹو کاپیوں سے گزارا کیا جا تا تھا۔اور اس زمانے میں یہ فو ٹو کاپی بھی خاسی مہنگی پڑتی تھی ۔ بھٹو صا حب نے یہ فاؤنڈیشن بنا کر اسے اجازت دے دی کہ و ہ باہر کی ٹیکنکل کتابیں پاکستان میں چھا پے،اور طلبہ کو سستی کتابیں مہیا کرے ۔کاپی رائٹ کی ایسی تیسی ۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک ہم نے کاپی رائٹ کے جنیوا کنونشن پر دستخط نہیں کئے تھے ۔ پھر جب ہم اس کنونشن کا حصہ بن گئے تو ہمارے لئے یہ کتابیں چھاپنا ناممکن ہو گیا ۔ اب سوال یہ تھا کہ بک فاؤنڈیشن کیا کرے ؟ چنانچہ اسے دوسرے اداروں کی طرح مختلف مو ضو عات پر کتابیں چھاپنے کے کام پر لگا دیا گیا ۔ گویا اکادمی ادبیات اور مقتتدرہ قومی زبان جیسے ادارے جو کام کر رہے تھے فاؤنڈیشن نے بھی وہی کام شروع کر دیاکہ کتابیں چھاپے جاؤ۔
اب آئی باری مظہر الا سلام کی ۔یہ آدمی نچلا بیٹھنے والا نہیں ہے ۔اس نے سوچا کہ اگر دوسر ے اداروں کی طرح ہم بھی صرف کتابیں ہی چھاپ کر بیچتے رہے تو ہماری انفرادیت ہی کیا ہو ئی ۔ اس نے ملک بھر کے چھوٹوں، بڑوں اور مردوں عورتوں میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا کر نے کی مہم چلادی ۔ پہلے اس نے پورے ملک میں کتابوں کے سفیر بنائے ۔ یہ سفیر ادیب و شاعر بھی تھے اور مصور و فن کار بھی ۔ پھربک کلب بنانا شروع کئے جنہیں ملک بھر میں پھیلانے کا منصوبہ ہے ۔ سالانہ یوم کتاب اور ہر سال سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے کو انعام دینا بھی اسی مہم کا حصہ ہے ۔ اس کی تفصیل ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں۔ اس وقت تو ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہر نئی حکومت کے ساتھ علمی ادبی اداروں کے سر براہ بھی بدل دینا چاہئیں ؟ مان لیا کہ کوئی آدمی بھی غیر سیاسی نہیں ہوتا ۔ہر ایک کے سیاسی خیالات ہوتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی جماعت کو پسند کرتا ہے ۔ لیکن علم و ادب تو سیاست سے بالا ہوتے ہیں۔ علمی کام توہر جماعت اور ہر حکومت کے دور میں جاری رہتا ہے ۔اور پھر ایسا کام جس میں اوپر سے نیچے کی سطح تک علم و ادب کا ذوق پیدا کرنا ہی مقصود ہو،جس کا مقصد ہی یہ ہو کہ ہر بڑے اور ہر بچے میں کتاب پڑھنے کی لت ڈالی جائے، اس میں سیاست یا کسی جماعت سے و ابستگی کیا رکاوٹ ڈال سکتی ہے ۔ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ان اداروں میں عمر کی قید بھی نہ لگائی جائے ۔ پڑھنے لکھنے اور علم و ادب میں تحقیق کر نے والوں کی تو جتنی عمر بڑھتی جاتی ہے ان میں اتنی ہی پختگی آتی جا تی ہے ۔سوائے اس کے وہ جسمانی یا ذہنی طور پر اس قابل نہ رہیں ۔ ہم نے تومقتدرہ قومی زبان( آپ اس کا کوئی بھی اور نام رکھ لیں،ہم تو یہی کہتے رہیں گے ) سے انوار احمد کی ریٹائر منٹ پر بھی احتجاج کیا تھا ۔ انوار احمد ہوں یا مظہرالاسلام ان کے لئے پوری لگن کے ساتھ کام کرنے کے یہی دن تو ہیں ۔ سیکھو پرائیویٹ کالجوں اوریونیورسٹیو ں سے ،وہ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ریٹائر ہونے والے استادوں سے کیسا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اورہم قاعدے قانون میں مکھی پر مکھی مار رہے ہیں ۔
ہم تو سرکاری افسروں کے بارے میں بھی یہی کہیں گے کہ ہر نئی حکومت کے ساتھ ان کی جو اکھاڑ پچھاڑ کی جا تی ہے وہ بھی بند ہو نا چاہئے ۔سر کاری افسر کسی سیاسی جماعت یا کسی آنے جانے والی حکومت کے نو کر نہیں ہو تے۔ وہ ریاست کے ملازم ہیں ۔ان کا کام اپنے منصبی فرائض ادا کر نا ہوتا ہے ۔جو بھی حکومت آئے، خواہ وہ کسی بھی جماعت کی ہو، انہیں تو اپنا کام کرنا ہے ۔بار بار کی تبدیلیاں ان کے کام پر بھی اثر انداز ہو تی ہیں ۔یہ بھی غلط نہیں ہے کہ سرکاری افسر بھی سیاست میں ملوث ہو نے لگے ہیں ۔ وہ بھی کسی ایک سیاسی جماعت کے پسندیدہ اور کسی دوسری جماعت کے نا پسندیدہ بن گئے ہیں ۔لیکن اس کی وجہ بھی بار بار کی اکھاڑ پچھاڑ ہی ہے۔ انہیں سیاست سے دور رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کم سے کم تین سال انہیں ایک عہدے پر بر قرار رکھا جائے ۔ یہ تجویز پہلے بھی دی چکی ہے ۔اگر کوئی افسر یا ملازم اپنے کام میں غفلت کرتا ہے یا بدعنوانی کا مرتکب ہو تا ہے تو اس کے لئے قوانین موجود ہیں۔اسے سزا دی جا سکتی ہے ۔ایک اور بات بھی ہے ۔یہ اکھاڑ پچھاڑان افسروں کو بدنام بھی کرتی ہے۔مشہور ہو جاتا ہے کہ یہ افسر فلاں سیاست داں کا منظور نظر ہے اور یہ فلاں سیاست داں کا ۔میاں نواز شریف ایک معقول اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔ انہوں نے بلو چستان میں اپنی جماعت کے بجائے نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی پارٹی کو حکومت سونپ کر جس سیاسی پختگی اورجس فہم و فراست کا ثبوت دیا ہے اس سے امید ہے کہ وہ سرکاری افسروں کے ساتھ علمی اور ادبی اداروں کے بارے میں بھی اسی پختگی اور فراخ دلی کا ثبوت دیں گے ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں مظہرالاسلام واپس آجا ؤ۔
تازہ ترین