• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
گزشتہ 18ماہ میں معاشرتی حوالوں میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کے اثرات دنیا بھرمیں آنے والے وقتوں تک محسوس کئےجائیں گے۔ باالخصوص مغربی اور امریکی دنیا میں۔ اس عرصہ کا اہم ترین واقعہ کورونا وائرس کا دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے جس کے نتیجےمیں دنیا بھرسے کئی لاکھ لوگ موت کےمنہ میںچلے گئے، کئی لاکھ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، کئی لاکھ بزنسز بند ہو گئے، کئی لاکھ چھوٹے بڑے خیراتی ادارے دم توڑ گئے اور ہر طرف امیدویاس کے اس ماحول نے لوگوں کی روٹینز ڈسٹرب کر دیں کہ اکثریت اپنے آپ کو اتنی کنفیوزڈ محسوس کر رہی ہے کہ ہر کسی کو اپنا سابقہ لیول تلاش کے باوجود نہیں مل پا رہا۔ ذرائع ابلاغ کی اکثریت کی وجہ سے لوگوں کی بھاری تعداد ان تمام بڑے حکومتی فیصلوں سے ہر لمحہ باخبر ملتی ہے جو ریاست عوام کو اس وبا سے بچانے کیئے کر رہی ہے۔ برطانیہ میں اس وبا کا تیزی سے پھیل جانا حکومت کیلئے ایک صدمہ سے کم نہ تھا، تاہم جونہی وبا کی سنگینی وزرا پر عیاں ہونی شروع ہوئی، چانسلر نے اپنے فراخدلانہ اقدامات سے نیشنل ہیلتھ سروس کیلئے وسائل کے انبار لگا دیئے اور ہر NHSورکر لگن کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو گیا تاکہ اس وبا پر قابو پایا جا سکے۔ لاک ڈائون کے حوالے سے اکثر فیصلے بروقت ہوئے اور قومی مصیبت کی اس گھڑی میں برطانوی حزب اختلاف نے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کوکھلا ہاتھ دیا کہ وہ مفاد عامہ کے اکثر فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے کیونکہ ایسی وبا سے نمٹنے کیلئے ایسے ہی مثبت رویوں کی ضرورت تھی اور آج بھی ہے۔ اس وبا سے نمٹنے کا یہ سفر حکومت اور معاشرہ کیلئے ایک ایسا تجربہ تھا جس کے تمام حصے بالکل نئے تھے۔ چین جہاں سے اس وبا نے سر اٹھایا اور زور پکڑا خود اسے جاننے کی ایسی اہلیت تاحال حاصل نہیں کر سکا تھا۔ جودوسرے ممالک کیلئے مدد کا سبب بن سکتی۔ ان حالات میں ہر ملک کو ابتدا میں اس سے نمٹنے کی تمام تراکیب خود ہی سوچنی اور انہیں بروئے کار لانا پڑا۔ وبا کا یہ بے قابو طوفان جو نہ ملکی سرحدوں کا پابند تھا اور نہ ہی رنگ ونسل کی تفاریق میں الجھے رہنے میں یقین رکھتا تھا۔ اس عرصے میں دنیا بھر کے نظام ہائے ریاست کودرہم برہم کر چکا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ مختلف تجزیوں کے مطابق جو آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں ’’حال‘‘ ہمارے ماضی قریب کی نسبت بہت مختلف شکل اختیار کر چکا ہے۔ عجب نہیں کہ معاشرہ بدلے ہوئےحالات میں اپنا نیا مقام تلاش کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ملین جانوں کے ضیاع کے بعد کنٹرول پالیسی پر عمل کرنےکے دوران کوتاہیوں اور نااہلیوں کے بعد حکومت کی طرف دی گئی تقریباً 400بلین مالی امداد کے نتیجے میں این ایچ ایس میں کام کرنے والوں کی انتھک محنت کے نتیجےمیں برطانیہ دو ویکسینز تیار کرکے لوگوں کو لگانے کیئے رول آئوٹ کر چکا ہے۔ ماہرین کی رائےمیں ہر کسی کو دو ٹیکے لگنے کے بعد یہ کہاجا سکے گا کہ لوگوں کی بھاری تعداد اس وباکے حملے سےمحفوظ ہوجائے گی۔ معتبر اخبار The Timesکے مطابق جون کے آخر تک آبادی کا معتبر حصہ ممکنہ حد تک وبا کے پھیلائوسے محفوظ ہو چکا ہو گا۔ ریاست برطانیہ نے جس اہل انداز میں کورونا سے نمٹنا ہے جس اہل انداز میں مشکلات کے باوجود لوگوں کے روزگار کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ جس مساوی اندازوں میں ویکسین لگوانے کا اہتمام کیا ہے اور جس عقلمندی سے اپوزیشن کو ساتھ چلایا ہے۔ اس پر ریاست کی کارکردگی کی تعریف کی جانی چاہئے۔ اقلیتی کمیونٹیز کے ایک حصے نے ابتدا میں ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ دکھائی۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اپنی بہتری کی خاطر اپنے رویئے بدلے۔ علما کرام اور اردو اخبارات میں لکھنے والے مہربانوں نے یہ مثبت تبدیلی لانےمیں مرکزی کردار ادا کیا۔ حالات بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سکول کھل چکے ہیں۔ کئی دوسری پابندیاں بھی کم کر دی گئی ہیں اور وسط مئی تک کئی مزیداہم پابندیاں ختم ہونےکا امکان ہے لوگ گھروں میں بند ہیں اورجلد باہر نکلنے کے خواہشمند ہیں۔ حکومت توقع کرتی ہے کہ اگر حالات حکومتی شیڈول کےمطابق آگے بڑھتے رہے تو گرمیوں میں کسی مرحلے پر لاک ڈائون ختم بھی ہو سکتاہے۔ اس وبا کومستقبل میں روکنے کیلئے کیا اس کا بھی کوئی ’’فلوجیب‘‘ لگوانا پڑے گا، ماہرین سوچ وبچار کر رہے ہیں اس دورانیہ میں اقلیتی امور سے آگہی مہم میں اضافہ دیکھنےکوملا۔ ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ اور اسی سوچ سے جڑی کئی دیگر تنظیموں کی انتھک محنت کے نتیجےمیں آج سیاہ نسل کے ساتھ زیادتیوں کے فوری نوٹس لئے جا رہےہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میںپولیس تحویل میں رنگدار لوگوں کی اموات ایک دیرینہ حل طلب معاملہ ہے۔ موت جارج فلائیڈ کی ہو یا لندن میں ڈیرک ڈگن کی شوٹنگ کی بات ہو معاملات ایسے حالات میں زیادہ پیچیدہ ہوجاتے ہیں جب ایسی اموت میں پولیس افسران براہ راست ملوث ہوں۔ اور ان دونوں معاملات میں پولیس ڈائریکٹلی ملوث تھی۔ ایسے واقعات میں پولیس اکثر یہ کہہ کر اپنا دفاع پیش کرتی ہےکہ مشتبہ شخص ان کیلئےجان لیوا خطرہ بن چکا ہے لہٰذا پولیس افسر کو اپنے دفاع میں گولی چلانی پڑی۔ معاملات یہاں آکر رک جاتے ہیں کہ آخر مرنے والوں کی اکثریت رنگدار کیوں ہوتی ہے؟ نسلی تعصب کے خلاف برٹش مہم کو اونچی سطح پر لےجانے میں رنگدار قائدین خواہ وہ کھیل سے جڑے ہوں۔ میڈیا پرسنز ہوں۔ فلموں میں کام کرنےوالے ایکٹرز ہوں یا پروفیشنل احتجاج کرنےوالے جانے مانےماہرین ہوں۔ تمام نے اپنا کردار ادا کیا ہےجس کے نتیجہ میں Black Lives Matterسلوگن آج قومی کوچ کا حصہ بن چکا ہے۔ لوگوں کا ایک طبقہ ماضی کی طرح ایسے طبقاتی نعروں کوآج بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے جس طرح کہ کئی دہائیاں قبل لیبر پارٹی کے اندر بلیک سیکشن قائم کر کے چند لوگ سیاسی اور سماجی سیڑھی پر چڑھ کر اونچے مقامات پر پہنچ گئے مگر لیبر پالیسیوں میں قابل ذکر تبدیلیاں نہ ابھر سکیں۔ کیونکہ قائدین کے مقاصد محدود تھے۔ تاریخ اپنے آ پ کودہرا رہی ہے تشدد اور ناانصافی ناقابل قبول ہیں اگر معاشرہ یہ نعرہ کہ All Lives Matter کو گلے لگانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے تو ایسی سوچ میں سے تفریق کا پہلو بھی ختم ہو جائے گا اور ہم سب مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے جہاں ملکی قوانین کا احترام ہوتا نظر آئے اورہم تمام ایک دوسرے کی انفرادیت کو عزت دیتے ہوئے تسلیم کر لیں جب اس ملک کی پولیس کا یہ قوی بیانیہ ہے کہ We Police By Consentپر عمل ہوتا نظر آئے گا۔ جب لوگ قوانین کے اندر رہتے ہوئے اپنے احتجاج ریکارڈ کراسکیں گے جب تمام ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے تودیگر حوالوں سے بہتریاں بخود نمودار ہونی شروع ہوجائیں گی ہماری کمیونٹی کو بھی مثبت شراکت داری کے ذریعے اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ 
تازہ ترین