• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کی تعلیم کے لیے قرآن کریم کی سورتیں خلافِ ترتیب پڑھانے اور چھاپنے کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: قرآن مجید کا آخری پارہ بچوں کی سہولت کے لیے خلافِ ترتیب شائع کیاجاتا ہے یعنی پہلے سورۂ فاتحہ اور اس کے بعد سورۂ ’’الناس ‘‘اور بعد بعد کی تمام سورتیں خلافِ ترتیب لکھی جاتی ہیں ۔کیا اس طرح شائع کرنا شرعاً جائز ہے ؟نیز اس ترتیب پر اس کے ٹائٹل میں ’’عم پارہ‘‘ یا ’’قرآنی سورتیں‘‘ نام دینا جائز ہے ؟(مفتی منیر احمد طارق )

جواب: قرآنِ کریم کی سورتوں اور آیات کی ترتیب توقیفی ہے ،یعنی رسول اللہ ﷺ سے سماع پر موقوف ہے ،اس میں اجتہاد ورائے کا کوئی دخل نہیں ہے۔ علامہ شیخ علی بن سلطان محمد القاری ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب کے توقیفی ہونے پر اجماع اور نصوصِ کثیرہ اس پر دلالت کرتی ہیں ‘‘۔مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پھر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی ترتیب توقیفی ہے ،اس لیے کہ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کی آخری آیت یہ ہے: وَاتَّقُوْا یَوماً تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ إِلَی اللہ‘‘ ترجمہ:’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے ،(سورۃالبقرہ:281)‘‘، تو جبرائیل ِ امینؑ نے آپ کو حکم دیا :’’ اسے آیتِ ربا اور آیتِ مداینہ کے درمیان رکھیں‘‘،اس لیے ترتیب کا الٹنا حرام ہے ،(مرقاۃ المفاتیح ،جلد:5،ص:109-111، دارالکُتُب العلمیہ ، بیروت) ‘‘۔

امام ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی ؒ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عمر ؓقرآن مجید کو خلافِ ترتیب پڑھنا مکروہ جانتے تھے اور فرماتے : یہ شِعار دل کو پلٹ دے گا ، پس اس سے ان دونوں کی مراد سورتوں کو الٹ کر پڑھنا تھی ،لہٰذا آخری سورت سے تلاوت شروع کرکے اول کی طرف جائے ، یہ حرام ہے،(الجامع الاحکام القرآن ،جلد1،ص:61)‘‘۔

نماز میں قرآن ترتیب سے پڑھنا یعنی سورتوں میں ترتیب رکھنا واجب ہے اور یہ احکام ِقرأ ت میں سے ہے ،احکامِ نماز سے نہیں۔ اگر قصداً خلافِ ترتیب پڑھا تو یہ مکروہِ تحریمی ہے ،لیکن نماز کا دُہرانا لازم نہیں ہوگا ۔علامہ ابن عابدین شامی (وَأَنْ یَّقْرَأَ مَنْکُوْساً)کی تشریح میں لکھتے ہیں :ترجمہ: ’’یعنی دوسری رکعت کے اندر پہلی رکعت میں پڑھی جانے والی سورت کے مقابلے میںایسی سورت پڑھی جو ترتیب میں اُس سے مقدّم ہے‘‘ ، (اگرچہ اس طرح خلافِ ترتیب پڑھنا مکروہ ہے ،لیکن نماز دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے) ، کیونکہ قرآن کو ترتیب سے پڑھنا تلاوت کے واجبات میں سے ہے(نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے )۔ ہاں!چھوٹے بچوں کی تعلیمی ضرورت کے پیشِ نظر سورتوں کو خلافِ ترتیب پڑھانا جائز قرار دیا گیا ہے، تاکہ انہیں پڑھنے (اور یاد کرنے )میں آسانی ہو، بحوالہ: طحطاوی ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد3،ص:480، دمشق )‘‘۔

امام اہلسنّت امام احمد رضا قادری ؒلکھتے ہیں: ’’ نماز ہو یا تلاوت، بطریق معہود ہو، دونوں میں لحاظِ ترتیب واجب ہے ،اگر عکس کرے گا ،گنہگار ہوگا۔ سیّدنا حضرت عبداﷲبن مسعود ؓ فرماتے ہیں:’’ ایسا شخص خوف نہیں کرتا کہ اﷲعزوجل اس کا دل اُلٹ دے ‘‘۔ہاں! اگر خارج نماز ہے کہ ایک سورت پڑھ لی پھر خیال آیا کہ دوسری سورت پڑھوں ،وہ پڑھ لی اوراس سے اُوپر کی تھی تو اس میں حرج نہیں یا مثلاً :حدیث میں شب کے وقت چار سورتیں پڑھنے کا ارشاد ہوا ہے: یٰسین شریف کہ جو رات میں پڑھے گا ،صبح کو بخشا ہوا اُٹھے گا۔ سورۂ دخان شریف پڑھنے کا ارشاد ہوا ہے کہ جو اسے رات میں پڑھے گا ،صبح اس حالت میں اُٹھے گا کہ ستّر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کر تے ہوں گے، سورہ ٔواقعہ شریف کہ جو اسے رات پڑھے گا محتاجی اس کے پاس نہ آئے گی ، سورہ ٔ ملک (تَبَارَکَ الَّذِی ) جو اسے ہر رات پڑھے گا ،عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔

ان سورتوں کی ترتیب یہی ہے ،مگراس غرض کے لیے پڑھنے والا چار سورتیں متفرق پڑھنا چاہتا ہے کہ ہر ایک مستقل جُدا عمل ہے، اُسے اختیار ہے کہ جسے چاہے ،پہلے پڑھے، جسے چاہے، پیچھے پڑھے۔ اما م نے سورتیں بے ترتیبی سے سہواً پڑھیں تو کچھ حرج نہیں ،قصداً پڑھیں تو گنہگار ہوا، نماز میں کچھ خلل نہیں، وَﷲ تَعَالٰی أَعْلَمُ وَعِلْمُہٗ اَتَمُّ وَأَحْکَمُ،(فتاویٰ رضویہ، جلد6، ص:239)‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین