• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن جیتنے کے فوراً بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک کی بنیادی ترجیحات پر عرق ریزی کرتے دکھائی دیئے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، معاشی بحالی اور خزانے کا خالی ہونا موضوع بحث بنا رہا لیکن جونہی ایک ڈرون حملہ ہوا سارے پاکستان کی لیڈرشپ سب کچھ فراموش کر کے مذمتی بیانات اور قراردادوں تک محدود ہوگئی۔ کیا اگلے پانچ سال بھی ایسے ہی گزریں گے کہ خارجہ پالیسی کے مناقشے بنیادی معاشی ترجیحات کو پس پشت ڈالتے رہیں گے؟ امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا ہی ہوا تو پھر وطن عزیز کا خدا ہی حافظ۔
سب سے پہلے تو مسلم لیگ (ن) کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ عوام نے اسے خارجہ پالیسی کے نعروں کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشی کارکردگی کی بنا پر ترجیح دی ہے۔ اگر امریکہ دشمنی یا ڈرون مخالف بنیادوں پر عوامی ترجیحات مرتب ہوتیں تو مسلم لیگ (ن) میدان میں بہت پیچھے رہ جاتی کیونکہ عمران خان سے لیکر دوسری مذہبی پارٹیاں اس سلسلے میں بہت سخت موقف اختیار کئے ہوئے تھیں۔ بعض مبصرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان پر ڈرون کا جنون طاری نہ ہوتا اور اگر وہ معاشی اور معاشرتی ایجنڈے پر زیادہ زور دیتے تو شاید مسلم لیگ (ن) اتنی بھاری تعداد میں نہ جیت پاتی۔اس لئے مسلم لیگ (ن) کو ہر لمحہ اس پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اسے معاشی حالات کو سنوارنے کیلئے منتخب کیا گیا ہے، باقی سارے پہلو ثانوی حیثیت کے ہیں۔
دنیا کی اکثریت ڈرون حملوں کو ناجائز تسلیم کرتی ہے اور ظاہر بات ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو اس کے خلاف بیان دینا ہی پڑتا ہے اور شاید حملہ کرنے والے بھی ایسے بیانات کو سیاسی ضرورت سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کلی طور پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کیسے تعلقات استوار کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں دولت اور طاقت کی تقسیم غیر مساوی اور غیر ہموار ہے۔ ایک گاوٴں کی آبادی سے لیکر عالمی طاقتوں تک ایک ہی اصول کارفرما ہے یعنی طاقتور ناتواں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ایسی صورتحال میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کیلئے دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اپنی حیثیت کا درست ادراک کرتے ہوئے اپنی ترجیحات طے کی جائیں اور فیصلہ کیا جائے کہ کس پہلو پر مصلحت کوشی کی ضرورت ہے اور کس نکتے پر ڈٹا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی ترجیحات طے کرنا راکٹ سائنس نہیں ہے۔ ہمیں یہ علم ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور بدامنی بہت ہی مختصر علاقوں تک محدود ہے۔ طالبان اور مختلف نوع کے جہادی پاک افغان سرحد کے علاقوں میں اور کچھ مافیا کراچی میں بدامنی کا باعث ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود نام نہاد جنگ میں گھسیٹے جانے کے دعوے کے پاکستان کی بڑی بڑی کارپوریشنیں ریکارڈ منافع کما رہی ہیں، جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ مسلسل بلندیوں کو چھوتی رہی ہے۔ اسی نام نہاد شورش کے دور میں امیروں کی تعداد میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے اور غریب غریب تر ہوئے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہماری دہشت گردی میں شمولیت کے بنا پر پاکستان کے موجود حکمران طبقے کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی نے ہمارے ذہنوں کو اس قدر معطل کئے رکھا ہے کہ ہم حقیقی مسائل کی طرف توجہ ہی نہیں دے سکے اور پاکستان عوام بدحالی کا شکار رہے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا نظریاتی بیانیہ (Narrative) تبدیل کریں اور واضح طور پر کہیں کہ ہمارا بنیادی مقصد معاشی ترقی اور گُڈ گورننس ہے نہ کہ افغان جنگ میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا۔
پاکستان میں سب سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری اور قومی دولت کی لوٹ مار ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جو سوموٹو لئے ہیں ان میں سے پچانوے فیصد کا تعلق حکمران طبقے کی بدعنوانیوں سے ہے۔ اگر پولیس کی فلاحی کالونی میں وزیر اعظم شوکت عزیز ، ایک جج اور اس نوع کے بااثر لوگ کئی کئی رہائشی پلاٹ اپنے نام کروا لیتے ہیں تو اس کا دہشت گردی کی جنگ یا ڈرونز کے گرنے یا نہ گرنے سے کیا تعلق ہے؟ اگر ملک میں اور بالخصوص سندھ میں امتحانات میں نقل عام وتیرہ بن چکا ہے تو اس کا دہشت گردی یا انتہا پسندی کے ساتھ کیا واسطہ۔ طالبان اور جہادیوں کا بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ غرضیکہ غور کریں تو پاکستان کے بنیادی مسائل کا افغان مسئلے سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ہاں اگر تعلق ہے تو وہ بہکاوے کا ہے یعنی ہم عالمی مسائل میں بہک کر اپنے ٹھوس مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اگر ہم غور کریں کہ جس عرصے میں ہم افغان مسئلے کی جھنجھٹ میں الجھے رہے ہیں ہندوستان معاشی میدان میں ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ اب ہم ہندوستان سے مسابقت میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ یہی کچھ چین نے کیا ہے، اس کے بھی قریبی ممالک اور دنیا کی سپر پاور امریکہ کے ساتھ بہت سے معاملات پر شدید اختلافات ہیں لیکن چین نے تجارتی اور معاشی تعلقات کو ان جھگڑوں میں یرغمال نہیں ہونے دیا۔ خود ہندوستان اور چین انیس سو باسٹھ میں بہت بڑی جنگ لڑ چکے ہیں اور آج بھی ان کے درمیان سنجیدہ قسم کے سرحدی تنازعات موجود ہیں لیکن انہوں نے آپس کے معاشی تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان تجارت کا حجم کئی گنا بڑھا ہے اور دونوں تیز ترین ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان کو اگر اپنے پاوٴں پر کھڑا ہونا ہے تو اسے اپنے ان ہمسایہ ممالک کی تقلید کرنا پڑے گی۔ہمیں پوری طرح اپنی توجہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی ترجیحات پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی ریاست کی موجودہ ترجیحات کو ثانوی اور اضافی سمجھنا ہو گا۔ ہمیں امریکہ کی افغان جنگ سے پہلو تہی کرنا ہوگی۔ ہمیں ڈرونز کے مسئلے کو مدبرانہ سفارت کاری تک محدود کرنا ہو گا۔ ہمیں ہندوستان اور افغانستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان دونوں ممالک سے اپنے مثبت معاشی رشتے استوار کرنے ہوں گے۔ اگر آج ہندوستان ہمارے ایٹم بم کی وجہ سے ہمارے اوپر حملہ کرنے سے گریزاں ہے تو افغانستان جیسا ناتواں ملک ہندوستان سے چند ہتھیار لے کر ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ ممکن ہے اگر ہمارے ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہو جائیں تو وہ افغانستان کو اسلحہ کی فراہمی سے بھی گریز کرے۔
ویسے تو مسلم لیگ (ن) کافی موقع شناس اور عمل پسند بن چکی ہے لیکن اپنے ماضی کے نظریات کے باعث مذہبی نظریاتی جماعتوں کی نعرے بازی میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس وقت یہ کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ واشنگٹن اور مغربی ممالک پہلے ہی نوازشریف کو دائیں بازو کا رہنما سمجھتے ہوئے ان کے بارے میں کافی مشکوک ہیں۔ ان کو نظریاتی نعرے بازی کے بارے میں بہت محتاط رہنا پڑے گا۔ ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ ایٹمی دھماکہ کرنا آسان تھا کیونکہ اس پر تیس سال سے کام ہو رہا تھا، معاشی دھماکہ کرنا جوئے شیر لانا ہے کیونکہ اس پر نئے سرے سے کام شروع ہو رہا ہے اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ میاں نوازشریف پچھلے تیس سال کے پرانے نظریاتی واہموں سے قطع تعلق کریں اور نئے نظریاتی بیانیہ کی طرح ڈالیں جس کی بنیاد معاشی ترجیحات اور عوامی فلاح ہو۔ ان کو اپنے حریفوں کے نعرے بازی سے متاثر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر وہ صحیح ہوتے تو لوگ میاں صاحب کے بجائے ان کو منتخب کرتے۔
تازہ ترین