• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں پاکستانی قوم نے ایٹمی دھماکوں کی 15 ویں سالگرہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ منائی۔ یہ سالگرہ ہمیں اس دن کی یاد دلاتی ہے جب 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے چاغی کی پہاڑیوں میں 5 دھماکے کئے اور پاکستان ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن کر ابھرا جس نے دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے سر فخر سے بلند کردیئے کیونکہ آج مسلمان یہ کہنے کے قابل ہوچکے تھے کہ ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں۔ میرا یہ معمول رہا ہے کہ ہر سال اس دن کی مناسبت سے میں ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فون کرکے اس عظیم دن کی مبارکباد دیتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بناکر اس کی سلامتی کو یقینی بنایا۔ آج کا میرا یہ کالم بھی ”یوم تکبیر“ کے حوالے سے ہے اور میں اپنے کالم میں کچھ ایسے واقعات تحریر کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہے جو مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی معلوم ہوئے۔
بہت کم لوگوں پر یہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے کئی دن بعد تک جب پاکستان کی جانب سے جواباً کوئی ایٹمی دھماکہ نہیں کیا گیا تو بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے بڑے فاتحانہ انداز سے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستانیوں کو چاہئے کہ اب وہ شرم سے اپنا سر جھکا کر چلیں کیونکہ اُن کی کھوکھلی دھمکی (Bluff) پکڑی گئی ہے اور پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کے دعوے جھوٹے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ہم بہت جلد آزاد کشمیر کو بھی پاکستان سے آزادی دلاکر بھارت میں شامل کرلیں گے“۔ اس صورتحال میں پاکستانی حکومت بڑی شش و پنج اور دباؤ کا شکار تھی، ایک جانب ایٹمی دھماکے کرنے پر امریکہ دھمکیاں اور دوسری جانب دھماکے نہ کرنے پر لالچ دے رہا تھا جبکہ حکومت میں شامل کچھ وزراء بھی ایٹمی دھماکے کے خلاف تھے جن کی رائے تھی کہ ”اگر پاکستان ایٹمی دھماکے کرتا ہے تو عالمی برادری پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگادے گی اور ہماری معیشت مفلوج ہوجائے گی“۔
جوں جوں دن گزرتے جارہے تھے عالمی سطح پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ شاید پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کے دعوے جھوٹے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک خط وزیراعظم میاں نواز شریف کو لکھا جس میں تحریر تھا کہ ”مجھے اندازہ ہے کہ آپ اس وقت شدید امریکی دباؤ کا شکار ہیں، امریکہ آپ کو دھمکیاں اور لالچ دے رہا ہے لیکن اگر آپ نے آج ایٹمی دھماکہ نہیں کیا تو پھر ہم مستقبل میں کبھی ایسا نہ کر پائیں گے اور ہماری برسوں کی محنت رائیگاں چلی جائے گی اور دنیا سمجھے گی کہ ہمارے دعوے جھوٹے تھے، اگر آپ نے اس وقت جرأت سے کام نہ لیا اور ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو میں قوم پر یہ واضح کردوں گا کہ پاکستان ایک نیوکلیئر پاور ہے مگر ہمارے حکمراں دھماکے کرنے کی جرأت نہیں کرپارہے اور ایسی صورتحال میں اور میری ٹیم کے ارکان اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں گے“۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس خط کے بعد میاں نواز شریف نے شدید بیرونی دباؤ کے باوجود فوراً ہی ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
28 مئی 1998ء کے تاریخی دن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اس دن نماز فجر میں اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا مانگی کہ ”اے اللہ! آج پاکستان کی عزت اور حفاظت تیرے ہاتھ میں ہے، میں جس مشن پر جارہا ہوں اس میں مجھے کامیابی عطا فرما“۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ ایک سیکرٹ مشن تھا جس کا علم اُن کی اہلیہ کے علاوہ کسی کو نہ تھا۔ اس دن پنجاب حکومت کا ایک خصوصی طیارہ اُنہیں بلوچستان لے کر گیا جہاں سے وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر چاغی پہنچے۔ اس مقام پر 140 سائنسدانوں، انجینئروں اور ٹیکنیشنوں پر مشتمل ایک ٹیم پہلے سے ہی موجود تھی۔ ایٹمی دھماکے کا کنٹرول روم چاغی پہاڑ سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ سہ پہر 3 بجکر 13 منٹ پر جیسے ہی ایٹمی دھماکہ کیا گیا ایسا لگا جیسے زمین میں زلزلہ پیدا ہوگیا ہو اور زمین کانپ اٹھی ہو جو ایک کامیاب ایٹمی دھماکے کی علامت تھی۔ 10 سیکنڈ بعد چاغی کا وہ تاریخی پہاڑ پہلے سرخ اور پھر سفید ہوگیا جسے دیکھتے ہی کنٹرول روم ”اللہ اکبر“ کے نعروں سے گونج اٹھا اورلوگ سجدے میں گرگئے۔ ایٹمی دھماکے کی خبر سب سے پہلے ایران نے نشر کی کیونکہ ایٹمی دھماکے کا مقام چاغی پہاڑ ایران کی سرحد سے قریب تر ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول پاکستان کا ایٹمی پروگرام بڑے نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ بے نظیر دور حکومت میں جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تو بے نظیر بھٹو نے اُن سے دریافت کیا کہ ”کیا ہم نے نیوکلیئر ڈیٹرنس حاصل کرلی ہے“ تو اُنہیں بتایا گیا کہ ”ہمارے پاس کچھ ایٹم بم ہیں“ جس پر بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ”اب جبکہ ہم نے نیوکلیئر ڈیٹرنس کی صلاحیت حاصل کرلی ہے تو ہمیں یورینیم کی افزودگی روک دینی چاہئے کیونکہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے حکومت پر شدید امریکی و بیرونی دباؤ ہے“۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اُن کی ٹیم نے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر یورینیم کی افزودگی کو روکنا ملکی مفاد میں بہتر نہ سمجھا اور اسے جاری رکھا جس کے باعث ہماری ایٹمی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پاکستانی ایٹمی صلاحیت بھارت پر آشکار کرنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر جب پاکستان کے دورے پر آئے تو طے شدہ منصوبے کے تحت اُن کی ملاقات ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے کرائی گئی۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے کلدیپ نائر پر واضح کیا کہ ”پاکستان کا ایٹمی کولڈ ٹیسٹ کامیاب رہا ہے اور پاکستان نیوکلیئر صلاحیت رکھنے والا ملک بن چکا ہے“۔ ملاقات کے بعد کلدیپ نائر جب اپنے وطن واپس لوٹے تو وہاں اُنہیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا سامنا کرنا پڑا جس پر کلدیپ نائر نے انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا جس کے بعد پاکستان کے ساتھ بھارتی رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی۔
تازہ ترین