برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں انگریزوں کے تسلط قائم کرنے سے پہلے مختلف ادوار میں جنگی حکمت عملی اور دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لیے قلعوں کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے۔ اگر جنت نظیر وادی کشمیر کی بات کریں تو ایک اسٹریٹجک علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں مختلف حکمرانوں نے کئی قلعے تعمیر کروائے۔
تاہم، آج ان میں سے کئی قلعے دشمن کے حملوں اور امتدادِ زمانہ کے باعث صفہ ہستی سے مٹ گئے ہیں جبکہ باقی بچ جانے والے قلعے قدرتی آفات اور حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس سے قبل ہم آپ کو قلعہ رام کوٹ، قلعہ آئن، قلعہ بارل، قلعہ تھروچی، قلعہ باغسر اور مظفرآباد کے لال قلعے کے بارے میں تفصیلاً آگاہ کرچکے ہیں، لہٰذا آج کی تحریر میں کچھ مزید قلعوں کا مختصراً ذکر کیا جارہا ہے۔
قلعہ منگلا
اس قلعے کو حکمت عملی کے تحت منگلاجھیل کے سب سے اونچے پہاڑ پر تعمیر کیا گیا۔ قلعہ منگلا اس مقام پر واقع ہے جہاں دریائے جہلم پہاڑیوں کو پنجاب کے میدانی علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قلعہ منگلا قبل مسیح میں تعمیر کیا گیا اور یہ تقریباً اسی جگہ پر موجود ہے جہاں سے سکندر اعظم نے دریائے جہلم کو عبور کیا تھا۔ یہاں سے کوئی 10میل دور سکندراعظم اور راجا پورس کی فوجوں کے مابین آخری جنگ لڑی گئی تھی جس میں سکندر کی فوجوں کو فتح حاصل ہوئی تھی۔ قلعے کے نام کے حوالے سے کئی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔
اسے بادشاہ پورس کی بیٹی منگلا دیوی کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے جبکہ کچھ کے مطابق اس کا نام علاقے کی ایک لوک ہیروئن مائی منگلا کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کانام قلعہ کے مغرب میں تلہٹی میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں کے نام سے ماخوذ ہے جو تعمیر سے قبل یہاں موجود تھا۔
منگلا ڈیم کی تعمیر کے دوران قلعہ منگلا کے ایک حصے کو نقصان پہنچا، تاہم ایک بڑا حصہ باقی بچ گیا۔ قلعے کی تعمیر پتھروں اور چونے سے کی گئی ، اس کی فصیل اب بھی کافی بہتر حالت میں ہے۔ اسے خطے کا ایک اہم سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے مگر سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر اب یہاں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔
قلعہ کرجائی
مخدوش ہوتا یہ معروف قلعہ کھوئی رٹہ شہر سے تقریباً 17کلومیٹر کے فاصلے پر وادی بناہ میں واقع ہے۔ اسے ایک اونچے ٹیلے پر تقریباً 350سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ قلعے کے حوالے سے درست تاریخ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کروایا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر گورنر کشمیر ملک ظفر نے کروائی اور یہ گرمیوں میں اس کی بیٹی راج محل بیگم کی آرام گاہ تھا۔ قلعے کی تعمیر میں پتھروں اور چونے کا استعمال کیا گیا۔
اس کے چاروں اطراف مضبوط اور بلند فصیل جبکہ دور سے آنے والے حملہ آوروں پر نظر رکھنے کے لیے پہرہ داروں کی چوکیاں بنائی گئی تھیں۔ یہ سطح سمندر سے 2500فٹ کی بلندی پر ہے۔ قلعے میں کھڑے ہوکر ایسا لگتا ہے جیسے آپ بلند ترین مقام پر کھڑے ہوں ، بادل آپ کے پاس سے گزرتے ہیں، اچانک دھوپ نکل آتی ہے اور اگلے ہی لمحے بادل۔ یہاں سے بہت ہی دلکش نظارے دیکھنے کو ملتےہیں۔
تقسیم ہند سے قبل قلعے سے ایک راستہ مقبوضہ جموں کشمیر کے علاقے راجوری کو بھی جاتا تھا۔ طویل عرصے سے حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث یہ قلعہ اب کھنڈر کا منظر پیش کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنا وجود کھوتا جارہا ہے۔
قلعہ بھرنڈ
آزاد کشمیر کا بڑا تجارتی قصبہ سہنسہ، کوٹلی سے راولپنڈی روڈ پر تقریباً 35کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ سہنسہ کی خوبصورتی کو قدرتی جنگلات اور ہریالی نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔ دریائے پونچھ اس کے مشرق اور دریائے جہلم اس کے مغرب میں اپنی روانی سے بہتے ہیں۔ سہنسہ میں ایک قدیم قلعہ بھی واقع ہے جسے قلعہ بھرنڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق یہ قلعہ برطانوی دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کی تعمیر ڈوگرا راج میں ہوئی۔ یہ قلعہ بھی آزاد کشمیر کے دیگر قلعوں کی طرح پہاڑی چوٹی پر تعمیر کیا گیا ہے جو کہ پنڈی کوٹلی روڈ سے2کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ قلعے تک پہنچنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ اس کے اندر جانے کے لیے سیڑھیاں موجود ہیں۔
موسم اور قدرتی آفات کے باعث قلعے کے برج اور فصیل میں بڑی بڑی دراڑیں پڑگئی ہیں۔ پتھر سے تعمیر کردہ اس قلعے میں آس پاس کے علاقے میں دشمن پر نظر رکھنے اور گولیاں چلانے کے لیے کھڑکیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ قلعے میں باقی بچ جانے والے کمروں کی چھتیں گرچکی ہیں۔ اس کے اندر آتش دان بھی اپنی اصل حالت میں نظر آتے ہیں۔
قلعے میں ایک کنواں بھی موجود ہے جس میں غالباً پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا مگر اب اس میں صرف جنگلی پودے موجود ہیں۔ ایک تہہ خانہ بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بند ہوگیا ہے۔ یہاں سے قلعہ تھروچی کا بھی نظارہ کیا جاسکتا ہے۔