• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارتِ خزانہ کی 10مارچ 2021کی رپورٹ کے مطابق خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کا گزشتہ دو برسوں 2018-20میں مجموعی خسارہ 429ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ حکومتی اداروں میں 10سب سے زیادہ منافع بخش اداروں میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (OGDC) کا منافع 118.3ارب روپے جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) کا سب سے زیادہ خسارہ 173ارب روپے تھا۔ پاکستان کی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز جسے اسٹیٹ اون انٹرپرائزز بھی کہا جاتا ہے، کی تعداد 212ہے جن میں 85کمرشل، 44نان کمرشل، 83سبسڈیز شامل ہیں۔ اِن اداروں میں توانائی (آئل اینڈ گیس سیکٹر)کے سب سے زیادہ 21ادارے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت کے 212اداروں میں سے 197 ادارے نقصان میں چل رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اِن اداروں نے اس سال بینکوں سے 330ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 36فیصد زیادہ ہے جس کی وجہ سے PSEsکے مجموعی قرضے بڑھ کر 1085ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

ہر حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد اِن اداروں کی نجکاری اور تنظیم نو کا وعدہ کیا لیکن نجکاری کی وزارت ہونے کے باوجود خسارے میں چلنے والے اداروں مثلاً اسٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے، واپڈا (ڈسکوز) اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی نجکاری عمل میں نہیں لائی جاسکی بلکہ بلوکی اور حویلی بہادر شاہ جیسی بجلی پیدا کرنے والی منافع بخش کمپنیوں کی اسٹریٹجک نجکاری کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ منافع بخش حکومتی ادارے OGDCکے 7فیصد شیئرز اور PPLکے 10فیصد شیئرز بھی مارکیٹ میں فروخت کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ سروسز ہوٹل لاہور، SMEs بینک اور جناح کنونشن سینٹر جیسی 32اہم سرکاری جائیدادوں کی فروخت کیلئے پیشکش طلب کی جارہی ہے۔ نجکاری کے دوسرے مرحلے میں گدو پاور پلانٹ، نندی پور پاور پلانٹ، فرسٹ وومن بینک، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، پاکستان ری انشورنس، ہیوی مکینکل کمپلیکس، پاکستان اور سندھ انجینئرنگ شامل ہیں۔ 1990کی دہائی میں حکومتی اداروں کی نجکاری اور فروخت کا عمل شروع ہوا اور 1991سے اب تک حکومت کے 173اداروں کو فروخت کیا جاچکا ہے جس سے حکومت کو 650ارب روپے حاصل ہوئے۔ اِن اداروں میں بینک، توانائی، ٹیلی کمیونی کیشن، آٹو موبائلز، سیمنٹ، کیمیکلز، انجینئرنگ، فرٹیلائزر، گھی، معدنیات اور ٹورازم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ادارے شامل ہیں۔ ان اداروں کی فروخت سے ملنے والی رقوم کو قانون کے تحت 90فیصد قرضوں کی ادائیگی اور 10فیصد غربت میں کمی کیلئے استعمال کیا جانا تھا۔

موجودہ حکومت مالی دبائو کا شکار ہے۔ بجٹ خسارہ بڑھ کر 8.9فیصد یعنی 3.44کھرب روپے کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ اِن میں بڑا خسارہ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروںکا ہے جو ملکی خزانے میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے اس پر طویل عرصے سے بوجھ بن رہے ہیں۔ وفاقی وزیر نجکاری میاں محمد سومرو نے مجھے بتایا کہ اسٹیل ملز کو فروخت کرنے کے بجائے لیز پر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اسٹیل ملز کے جنوری 2021تک نقصانات اور قرضے 480ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر ایئر مارشل ارشد ملک سے گفتگو میں مجھے معلوم ہوا کہ پی آئی اے نے حکومت کو بحالی کا ایک پروگرام دیا ہے جس کے تحت ایئرلائن کے طیاروں میں اضافہ کیا جائے گا تاہم ایئر لائن کے قرضوں اور اضافی اسٹاف سے متعلق فیصلہ نہیں ہو سکا۔ پاکستانی پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کے معاملے پر پاکستان ایئر لائن اور سول ایوی ایشن پر عائد پابندیوں میں مزید توسیع ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ کورونا وبا کے دوران سفری پابندیوں سے بھی پی آئی اے کو مالی نقصان ہورہا ہے جو 157ارب تک پہنچ گیا ہے۔ وزارت خزانہ کی حالیہ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ توانائی کے شعبے میں چلنے والے حکومتی ادارےسب سے زیادہ خسارے میں ہیں جن میں پاور پروڈکشن، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کی کمپنیاں شامل ہیں۔ خسارے کی سب سے بڑی وجہ بجلی چوری ہے جسے روکنے کیلئے حکومت کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ پاور سیکٹر میں خسارے سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے جو بڑھ کر 2306ارب روپے کی خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں جبکہ خدمات کے شعبے میں خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن، پاکستان ٹیلیویژن کارپوریشن،پی آئی ڈی سی اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی ترقیاتی بینک اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کو بھی خسارے کا سامنا ہے۔ وفاقی کابینہ نے حال ہی میں خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کے مالی نقصانات روکنے کیلئے اسٹیٹ اون انٹرپرائز بل 2021منظور کیا ہے جس میں 44کمپنیوں کی نجکاری یا مالی نقصانات کی وجہ سے اُنہیں بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ خسارے میں چلنے والے دیگر حکومتی اداروں کی عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی مشاورت سے اصلاحات کرکے تشکیل نو کی جائے گی۔ یہ بل جلد ہی پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی ہنگامی بنیادوں پر نجکاری یا تشکیل نو کرے تاکہ یہ قومی ادارے ناقابلِ برداشت بوجھ بننے کی بجائے ملکی معیشت کیلئے مددگار ثابت ہوں۔

تازہ ترین