• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب سب کچھ ایپس پر موجود ہے۔ بس مطلوبہ چیزوں کی ایپس ڈاؤن لوڈ کرکے زندگی آسان بنالی جاتی ہے۔ صحت ایک انتہائی اہم شعبہ ہے اور اس میں بھی ٹیکنالوجی نے اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ یوگا ایپس سے لے کر آن لائن فٹنس کلاسز، جسمانی اور ذہنی صحت سے لے کر چہل قدمی اور جاگنگ کی روٹین تک، اب سب کے لیے ایپس استعمال کی جانے لگی ہیں۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق صحت سے جڑی معیشت4.2کھرب ڈالر کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس میں سب سےزیادہ کردار دن بدن ترقی کرتی ٹیکنالوجی کا ہے۔ آجکل کی ٹیکنالوجی پر مبنی دنیا میں ہیلتھ اور ویلنس ایپس نے اس انڈسٹری کے پھلنے پھولنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اسٹریس سے چھٹکارا پانا ہو یا ڈپریشن کو دور بھگانا ہو، وزن کم کرنا ہو یا اپنی تمام تر صحت کوبرقرار رکھنا ہو ،لوگ ہر کام کے لیے ایپس ڈائون لوڈ کرتے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک میں لگنے والے لاک ڈاؤن کے باعث جہاں لوگوں نے ’ورک فرام ہوم‘ کیا، وہیں صحت کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف ویل نیس ایپ کا سہارا لیا جس کی وجہ سے ان ایپس کی ڈاؤن لوڈنگ میں 47فیصد کے قریب اضافہ دیکھا گیا۔ انٹرپرینیورز بھی ان ایپس کو مراقبہ یاخیالات کی تقطیرکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

مارکیٹ ریسرچ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں دنیا بھر میں ویل نیس ایپ کی مارکیٹ 6ارب ڈالرسے زائد تھی اور ایک تخمینے کے مطابق 2025ء تک اسے44فیصد کی شرح سے پھلتے پھولتے جانا ہے جبکہ توقع ہے کہ 2027ء تک ہیلتھ اور فٹنس ایپ کی مارکیٹ 59ارب 23کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ مارکیٹ کے سائز میں اضافے کے اہم عوامل میں رئیل ٹائم ڈیٹا کی مانگ میں اضافہ، صحت مند طرزِ زندگی کے حصول کی طرف بڑھتی توجہ، کھیلوں کی سرگرمیوں اور دل کی دھڑکن سے باخبر رہنے اور انٹرنیٹ کا بڑے پیمانے پر استعمال شامل ہے۔

تیزی سے فروغ پاتی ویل نیس انڈسٹری نئے انٹرپرینیورز کے لیے زبردست مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ انہیں صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیےصرف منفرد آئیڈیاز کو سوچنا اور اس مخصوص مارکیٹ کو اپنی مٹھی میں کرنا ہے۔ ذہنی وجسمانی صحت کے چیلنجز کو پورا کرنے والے یہ پروگرام تھوڑے پیچیدہ ہوتے ہیں یا پھر فائدہ پہنچانے کے لیے آ پ کو وقتی دورانیہ کا پابند کرتے ہیں۔ ان میں آسانی پیدا کرنے کے لیے انٹرپرینیور زآجکل نئی راہیں تلاش کررہے ہیں تاکہ انہیں استعمال کرنے والے سر سے لے کر پیر تک اپنی صحت کے بارے میں بآسانی معلومات حاصل کرسکیں اور یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔

ان ایپس میں ایک مثال Formula.lifeکی ہے ، جوآپ کو سانس لینے کی تکنیک بتاتی ہے تاکہ آپ ذہنی طور پر ڈپریشن سے آزاد ہوں اور مائنڈفل نیس کےساتھ اپنی نیند کو بہتر اور اسٹریس کو کم کرسکیں ۔ اسی مثال کو لے کر اگر انٹرپرینیورز دیگر جسمانی اور ذہنی مسائل کے حوالے سے ایپس متعارف کروائیں تو ان کے لیے ترقی کے بہت مواقع ہیں۔

ایک کمپنی نے ٹین ایجرز کی سوشلائزیشن کے لیے ایک ایپ تیار کی ہے جس میں میپ کے ذریعے ٹین ایجرز کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دوست کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں، پھر جس کسی کو بھی دوسرے سے ملنا ہوتا ہے تو وہ اس کے پاس پہنچ جاتاہے۔ سماجی تنہائی کے شکار زائد العمر افراد کے لیےاس طرح کی ایپ تیار کرنا ایک عمدہ خیال ہوسکتا ہےاس طرح ایک جیسے اذہان کے بزرگ ایک ساتھ مل بیٹھ کر اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔ وہ خود ایسی ایپ کے استعمال میں دلچسپی لیں گے اور اگر انہیں اسمارٹ فون استعمال کرنا نہ آتاہو تو بڑے بچے یا گھر کے دیگر افراد ان کا دوسروں سے رابطہ کروانے میں مدد کرسکتے ہیں۔

اسی طرح نشے کے عادی افراد کا مسئلہ ہے، ان کے نشے کی عادت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گھر کے افراد، کمیونٹی، یہاں تک کہ ملکی اقتصادیات بھی نقصان میںآجاتی ہے۔ بہت سے لوگ نشے کی علت چھوڑنا چاہتے ہیںلیکن انہیں راستہ نہیں ملتا، نہ ہی انہیں کفایتی علاج یاسستی نجی خدمات میسر آتی ہیں۔ یہ سوچ کر PearConectنامی ایک ایپ متعارف کروائی گئی، جس میں رویے میں بدلائو اور علاج بذریعہ ادویات (behavioral modification and medication-assisted treatment) پر توجہ مرکوز کی گئی۔

آج بھی امریکا میں نصف کے قریب بیمار آبادی کے پاس صحت کی بیمہ پالیسی نہیں ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ان کی قوت خرید نہ ہونا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے بنیادی صحت کی سہولت رکھنا مشکل ہوتاہے اور اس صورتحال میں صحت مند ذہن کےسا تھ کام کرنا اوربھی مشکل ہو جاتاہے۔ ایسے ہی نچلے طبقے میں رہنے والے افراد کے لیے ایک ایپ TalkSpaceتیار کی گئی ہے، جو انہیں اس قسم کے مسائل سے بچنے میں مدد کرتی ہے، تاہم ا س سلسلے میں مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔ یہ ایپ لوگوں کو ان لائسنس یافتہ تھراپسٹس تک رسائی دیتی ہے، جن کا معاوضہ کم ہوتا ہے اور وہ صحت کے مسائل کو حل کرنے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

تازہ ترین