• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23 مارچ 1940ء کیلئے لاہور کا انتخاب کیوں کیا گیا؟

منیر احمد منیر

آل انڈیا مسلم لیگ کے 27ویں سالانہ اجلاس کے لئے، جس میں قراردادِ لاہور منظور کی گئی جو بعد ازاں قراردادِ پاکستان کہلائی، لاہور کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ یہ سوال اس لحاظ سے بڑا اہم ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت یا تحریک کے اجلاس کے انعقاد میں جگہ اور مقام کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں ایک کمپیئر نے بھی پروگرام کے شرکا سے یہ سوال کیا تھا، جس کا خاطر خواہ جواب نہ دیا گیا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخی اور تاریخ ساز سالانہ سیشن کے لاہور میں انعقاد کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ لاہور میں 1935ء میں مسجد شہید گنج کا قضیہ چھڑا تھا۔ قائداعظم کی مدبرانہ سعی کے باعث اگرچہ امن قائم ہو گیا، لیکن عوام غصے میں بھرے پڑے تھے۔ اس لئے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ یا سپیشل اجلاس لاہور میں منعقد کرنے کی تجاویز آتی رہیں۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا لکھنؤ سیشن 15تا 18اکتوبر1937ء،مسلم لیگ اور مسلمانانِ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں زبردست اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ ابھی آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے لکھنؤ میں اجلاس بلانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے قائداعظمؒ کو لاہور میں سیشن بلانے کی تجویز دیدی، اس لیے بھی کہ پنجاب میں صوبے کے ہندو، سکھ اور مسلمان جاگیردار ٹولے کی حکومت تھی اور ان کی یونینسٹ پارٹی انگریز کی کاسہ لیس تھی۔ علامہ محمد اقبالؒ اس استحصالی اور قبضہ گروپ سے سخت شاکی تھے اور چاہتے تھے کہ آل انڈیا مسلم لیگ آئندہ سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد کرے تاکہ مسلم لیگ صوبے میں ایک قوت بن کر ابھرے۔ لاہور میں اجلاس منعقد کرنے کی تجویز کے پیچھے یہ دوسری بڑی وجہ تھی۔

بہرحال اس وقت کے حالات کے مطابق اس سالانہ اجلاس کا انعقاد لکھنؤ میں ہی بہتر ثابت ہوا۔ تاہم قائداعظمؒ نے علامہ اقبالؒ کے نام اپنے 2مارچ 1938ء کے خط میں خصوصی اجلاس لاہور میں منعقد کرنے کی صورت میں ان کی رائے جاننا چاہی۔ اور یہ بھی کہ اگر وہ اس کے حامی ہیں تو صوبہ پنجاب مسلم لیگ اس خصوصی اجلاس کے انعقاد کے لئے ضروری انتظامات کرنے کی پوزیشن میں ہو گی؟ جس پر علامہ نے 7مارچ کے خط میں قائداعظمؒ کو لکھا کہ پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے جلسۂ عام میں آپ کا خط پڑھ کر سنایا گیا۔ شرکائے اجلاس لاہور میں جلسہ کرنے پر متفق ہیں۔ تب پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے صدر سر شاہنواز ممدوٹ تھے، جو وزیراعظم پنجاب سر سکندر حیات کے دست راست تھے۔ اس متوقع اور زیر تجویز اجلاس سے یونینسٹ قیادت اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ نواب ممدوٹ کے ذریعے اس کا یہاں انعقاد نہ کروانے میں کامیاب رہی۔ 

اس فیصلے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قائداعظمؒ اس اجلاس کو بھرپور اور نتیجہ خیز دیکھنا چاہتے تھے، جو اس وقت کے حالات میں ممکن دکھائی نہ دیتا تھا۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ خصوصی اجلاس،17 ، 18اپریل 1938ء، کلکتہ میں ہونا قرار پایا۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ 21اپریل کو رحلت فرما گئے۔ اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ کا 26واں سالانہ اجلاس بھی لاہور میں نہ کیا گیا۔ یہ 26تا 29دسمبر1938ء کو پٹنہ میں ہوا، لیکن قائداعظمؒ حالات پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کی مضبوطی اور اپنی اور علامہ کی خواہش پر لاہور میں نتیجہ خیز سالانہ اجلاس کی تیاریاں جاری رکھیں، جو بالآخر 22تا 24مارچ1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں ہونا قرار پایا۔

اس وقت کے حالات کی روشنی میں بعض صحافتی اور دانشور طبقوں کے نزدیک اس اجلاس کی کامیابی مشکوک تھی۔ یہاں تک کہ مولانا چراغ حسن حسرت کا ادبی اور فکاہی ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ لاہور اس تاریخی اجلاس کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل 15مارچ1940ء کے شمارے میں صفحہ 18پر’’مسلم لیگ کا اجلاس‘‘ کی سرخی تلے لکھتا ہے:’’پار سال مسلم لیگ کا اجلاس پٹنہ میں ہوا تھا اب کے لاہور میں ہو رہا ہے۔ نواب ممدوٹ استقبالیہ کے صدر ہیں اور منٹو پارک میں پنڈال تعمیر کیا جا رہا ہے، لیکن جس ٹھاٹھ کا اجلاس پٹنہ میں ہوا تھا ویسا تو کیا ہو گا؟ ہاں پنجاب والوں کی عزت رہ جائے تو غنیمت ہے‘‘۔

اس اجلاس سے تین روز پہلے19مارچ کو اندرون بھاٹی گیٹ کے علاقہ ٹبی میں خاکساروں نے 313کفن پوش جانبازوں کا جلوس نکالا۔ خاکسار قائد علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی جنگ بدر کی پیروی میں 313جانبازوں کا یہ لشکر تیار کرکے خود تو دہلی جا بیٹھے۔ ادھر انگریز پولیس افسر کے ساتھ چپقلش اور بیلچے سے اس پر جاں لیوا وار کے نتیجہ میں خاکساروں کے اس جیش پر گولی چلی۔ کچھ مرے، کچھ زخمی ہوئے، زندہ بچ جانے والے ان ’’جانبازوں‘‘ نے طوائفوں کے گھروں میں چھپ کر جانیں بچائیں۔ 

لاہور کی فضا سخت سوگوار ہو گئی۔ اس بہانے سر سکندر حیات نے آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سیشن ملتوی کرانے کے لئے قائداعظمؒ پر بالواسطہ دبائو بڑھا دیا۔ درست یا غلط، وہیں سے یہ تاثر قائم ہوا کہ خاکساروں والا واقعہ سر سکندر حیات نے یہ اجلاس سبوتاژ کرنے کے لئے کرایا تھا۔ اس دبائو اور اجلاس کی کامیابی کے بارے میں پیدا ہو جانے والے نئے اور پرانے شکوک کے باوجود قائداعظمؒ نے واضح کر دیا کہ یہ اجلاس ہر حالت میں مقررہ ایام میں ہو کر رہے گا۔

قائداعظم ؒ20مارچ کو دہلی سے بذریعہ ٹرین لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔ 21مارچ صبح 9بجے گاڑی لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچی۔ اخباری رپورٹوں کی رو سے قائداعظمؒ کے استقبال کے لئے ستر ہزار افراد لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچ چکے تھے۔ لوگ قائداعظمؒ پر نچھاور کرنے کے لئے اپنے ساتھ اس قدر پھول لائے تھے، گویا کہ لاہور ہی نہیں گرد و نواح کے علاقوں میں بھی پھولوں کے کھیت اور کیاریاں خالی کر دی گئی ہیں۔ 

جلوس کے لئے تیاریاں زبردست تھیں، لیکن قائداعظمؒ نے خاکساروں والے واقعہ ٔ فاجعہ کے باعث جلوس منسوخ کر دیا۔ وہ سیدھے اپنی قیام گاہ ممدوٹ ولا پہنچے اور وہاں سے میو ہسپتال جا کر زخمی خاکساروں کی عیادت کی اور اسی شام منٹو پارک میں مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کی رسم ادا کرنے کے بعد خاکساروں کے ساتھ ہونے والے اس سانحہ پر رنج و الم کا اظہار کیا۔ اگلے روز 22مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ نے اس سانحہ پر ایک قرارداد بھی منظور کی۔

قرارداد لاہور، جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی، اصل میں وزیراعظم بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے 22مارچ کو پیش کرنا تھی، لیکن وہ کلکتہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن میں مصروفیت کی وجہ سے 22کو نہ پہنچ سکے، چنانچہ یہ قرارداد انہوں نے 23مارچ کو پیش کی اور یہ منظور 24مارچ کو کی گئی۔ ہندو پریس نے طنزاً اسے قراردادِ پاکستان لکھنا شروع کردیا۔ اس اجلاس کے بعد ممدوٹ ولا مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا مرکز ٹھہری جو قبل ازیں یونینسٹوں کا گڑھ تھی اور سر شاہنواز ممدوٹ اور ان کا خاندان تحریکِ قیامِ پاکستان میں انمٹ کردار کا حامل ٹھہرا۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا انعقاد لاہور میں اس لئے چاہتے تھے کہ انگریز نواز اور غاصب زمینداروں پر مشتمل یونینسٹ پارٹی کا زور ٹوٹے اور مسلم لیگ پنجاب میں سٹریٹ پاور بن کر ابھرے۔ اور مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی مقدر کا ستارہ گرداب میں سے نکلے۔ علامہ کی زندگی میں تو یہ اجلاس لاہور میں نہ ہو سکا، تاہم ان کی ابدی آرام گاہ کے قریب منٹو پارک میں یہ اجلاس پنجاب میں انگریز کے کاسہ لیس زمینداروں اور جاگیرداروں کا زور توڑنے میں کامیاب رہا۔ 

بہی خواہوں کے اندازوں اور بدخواہوں کی تمنائوں اور کوششوں کے مقابلے میں قائداعظمؒ کا یقین محکم کامیاب رہا اور یہ اجلاس زور دار اور تاریخ ساز ہونے کے ناتے ایک ایسی قوت محرکہ بن گیا کہ پورا برصغیر ’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے انقلابی نعروں سے ایسا گونجنا شروع ہوا کہ قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں 14اور 15اگست1947ء کی درمیانی شب 12بجے سب سے بڑی اسلامی مملکت اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان وجود میں آگیا۔

یہ تھا آل انڈیا مسلم لیگ کے27ویں سالانہ اجلاس کے لاہور میں انعقاد کا پس منظر۔

تازہ ترین