ڈاکٹر طاہر حمید تنولی
علامہ اقبال نے 1930میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد میں فرمایا تھا کہ میں فرقہ وارانہ مسائل میں سمجھوتے کی طرف سے ناامید نہیں لیکن مجھے تو کچھ ایسا نظر آتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہندوستان میں شاید ایسے خطرناک حالات پیدا ہو جائیں کہ مسلمانوں کو اپنا جداگانہ محاذ قائم کرکے ان کا مقابلہ کرنے پڑے۔ علامہ اقبال کی یہ رائے ہندوستان کے سالہا سال کے سیاسی منظر نامے کے تجزیہ کا نتیجہ تھی۔ ہندوؤں نے اگرچہ بظاہر مسلم لیگ کے ساتھ میثاق لکھنؤ پر اتفاق کر لیا تھا لیکن مسلمانوں میں پیدا ہونے والی سیاسی بیداری کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی موقع کی تلاش میں رہتے تھے جس سے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو ختم یا کم کرسکیں۔
ہندوؤں کو اپنے اس مقصد کی تکمیل کا موقع اس وقت مل گیا جب پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کے اتحادی جرمنی کو شکست ہوئی اور انگریزوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے ترکی کی عظیم سلطنت کے ٹکڑے کر دیے۔ مسلمانانِ ہند نے اس صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تحریک عدم تعاون شروع کر دی اور جلد ہی یہ تحریک تحریک خلافت میں بدل گئی۔ ہندو کانگریس کے لیڈر گاندھی نے یہ موقع غنیمت جانا اور مسلمانوں کے ملی جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
تحریک خلافت کی قیادت مولانا محمد علی جوہر کر رہے تھے جب حکومت نے انہیں قید میں ڈال دیا تو مسٹر گاندھی نے تحریک کی قیادت سنبھال لی۔ اس ماحول میں قائد اعظم نے مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کے ملی جذبات سے فائدہ اٹھا کر گاندھی ان کی سیاسی طاقت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس وقت جذبات اس حد تک مشتعل ہو چکے تھے کہ کوئی ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مسلمانوں کا رخ تحریک خلافت کی طرف ہو چکا تھا۔
اس عرصے میں مسلم لیگ اتنی بے اثر ہو گئی کہ جب 1928میں سائمن کمیشن ملک میں دستوری اصلاحات کے بارے میں سفارشات مرتب کرنے کے لیے آیا تو اس مسئلے پر مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تاہم بعد میں قائداعظم کی کوششوں سے مسلم لیگ کے دونوں دھڑے متحد ہو گئے لیکن قائد اعظم مسلم لیگ کو اس وقت ایک متحرک جماعت نہ بنا سکے۔ 1930میں مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے قائداعظم گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کے عدم اتفاق اور ہندوؤں کی سازشوں سے مایوس ہو کر انگلستان میں ہی رہ کر مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم ان کی عدم موجودگی میں سرکردہ مسلمان لیڈروں نے محسوس کیا قائداعظم کی عدم موجودگی میں مسلمانوں میں قیادت کا خلا پیدا ہوگیا ہے لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم سے درخواست کی جائے کہ وہ ہندوستان سے واپس آ کر مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام شروع کریں۔ اس مقصد کے لیے ان سے 1933کے آخر میں انہوں نے ایک بحری تار روانہ کیا گیا چنانچہ 1934میں قائد اعظم وطن واپس تشریف لائے اور مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام شروع کر دیا۔
اس کے لیے مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس سے اپریل 1936میں بمبئی میں منعقد ہوا۔ اسی اجلاس میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کے بارے میں لائحہ عمل طے کیا گیا اس لائحہ عمل کی روشنی میں قائداعظم نے ملک کے تمام صوبوں کے دورے کیے اور مختلف مسلمان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں چنانچہ قائداعظم کی کوششوں سے مسلم لیگ دن بدن ایک منظم جماعت بنتی چلی گئی اور آخر کار اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ اس مطالبے کے خدو خال علامہ اقبال نے 1930میں مسلم لیگ کے الہ آباد کے اجلاس میں اپنے خطبہ صدارت میں پیش کر دیے تھے۔ ان کی تجویز کی روشنی میں 23مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی اس موقع پر قائداعظم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
آج ہم اپنے اس اجلاس میں پندرہ مہینوں کے بعد مل رہے ہیں آل انڈیا مسلم لیگ کا پچھلا اجلاس 1938میں پٹنہ میں ہوا تھا۔ میں سب سے پہلے مختصر طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ پٹنہ کے اجلاس کے بعد سے مسلم لیگ کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کو یہ یاد ہوگا کہ ایک کام جو ہمارے ذمے تھا اور جو اب تک تکمیل پذیر نہیں ہوا یہ تھا کہ ہندوؤں کے ہر علاقے میں مسلم لیگ کی تنظیم کی جائے اس سلسلے میں گزشتہ چند مہینوں کے اندر ہم نے بہت ترقی کی ہے میں مسرت کے ساتھ آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ ہم نے ہر صوبے میں صوبائی لیگ کے دفاتر قائم کر دیے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات میں ہمیں ہر جگہ پر طاقتور حریفوں کا مقابلہ کرنا پڑا میں مسلمانوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ ان تمام آزمائشوں اور امتحانوں میں انہوں نے کمال جرات اور جوش کا اظہار کیا کسی ایک حلقہ انتخاب میں بھی مسلم لیگ کے مقابلے میں ہماری حریف کامیاب نہیں ہوسکے بس اتنا بتا دینا کافی ہے کہ مسلم لیگ قدم قدم نہیں بلکہ بہت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
میں جو کچھ دیکھتا ہوں اس کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بیدار ہو چکے ہیں اور مسلم لیگ ایک طاقتور سیاسی جماعت بن چکی ہے اب اسے کوئی نہیں مٹا سکتا۔ مسلمان عوام اب پوری طرح بیدار ہوچکے ہیں وہ آپ سے رہنمائی اور ہدایت چاہتے ہیں۔ اس لئے اسلام کی خدمت گاروں کی طرح آگے آؤ اپنی قوم کو اقتصادی حیثیت سے معاشرتی حیثیت سے تعلیمی اور سیاسی حیثیت سے منظم کرو پھر مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی طاقت ہوں گے جسے سب تسلیم کریں۔
اس اجلاس میں بنگال کے مسلم لیگی رہنما مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک قرارداد پیش کی جسے اس وقت قرارداد لاہور کا نام دیا گیا لیکن بعد میں وہ قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی اس قرارداد میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935میں پیش کیا گیا وفاقی منصوبہ غیر موزوں، ناقابل عمل اور مسلم ہندوستان کے لیے یکسر ناقابل قبول قرار دیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ مسلم ہندوستان اس وقت تک مطمئن نہیں ہوگا جب تک پورے آئینی منصوبے پر از سر نو غور نہ کیا جائے اور کوئی نیا منصوبہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا تاوقتیکہ ان کی رضامندی اور منظوری سے مرتب نہ کیا جائے۔
قرارداد لاہور میں یہ قرار پایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی یہ مسلمہ رائے ہے کی کوئی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہو گا تاوقتیکہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں پر وضع نہ کیا گیا ہو یعنی جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کی حدبندی ایسے خطوں میں کی جائے کہ جن علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے ان کی تشکیل ایسی آزاد ریاستوں کی صورت میں کی جائے جن کی مشمولہ وحدتیں خودمختار اور مقتدر ہوں۔
نیز ان وحدتوں اور خطوں میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کا مناسب موثر اور حکمی تحفظ ان کے مشورے سے آئین میں صراحت کے ساتھ کیا جائے اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کا مناسب، موثر اور حکمی تحفظ ان کے مشورے سے آئین میں صراحت کے ساتھ کیا جائے۔
مزید برآں یہ اجلاس مجلس عاملہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ان بنیادی اصولوں کے مطابق آئین کا ایک ایسا منصوبہ مرتب کریں جس کی رو سے مذکورہ علاقوں کو بالآخر کلی اختیارات حاصل ہو جائیں مثلا دفاع، امور خارجہ، مواصلات، محصولات اور دیگر ایسے امور جو ضروری سمجھے جائیں۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد 27جون 1940کو قائد اعظم نے وائسرائے ہند سے ملاقات کی اور ان کے سامنے مسلم لیگ کے مطالبات پیش کئے ان مطالبات میں کہا گیا تھا کہ برطانوی حکومت کوئی ایسا حکم نافذ نہ کرے جو مسلم لیگ کی قرارداد لاہور کے اصولوں اور بنیادوں کے خلاف ہو۔ حکومت اس بات کا قطعی وعدہ کرے کہ وہ کوئی دستوری سکیم اس وقت تک نافذ نہ کرے گی جب تک اسے مسلمانانِ ہند کی منظوری حاصل نہ ہو۔ مسلم قیادت کے ساتھ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے معاملات میں ایک مساوی فریق کا سا سلوک کیا جائے۔
گو شروع میں حکومت نے مسلم لیگ کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن بعد ازاں اسے مسلم لیگ کی سیاسی قوت کو تسلیم کرنا پڑا جب کچھ عرصہ بعد مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے تو ان انتخابات میں مسلمانوں نے مسلم لیگ پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور حریفوں میں اکثر کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔
انتخابات کے بعد مسلم ممبران اسمبلی کا عظیم کنونشن 1946میں دہلی میں منعقد ہوا جس میں مطالبہ پاکستان کے بارے میں دشمن کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کیا گیا خاص طور پر قرارداد پاکستان کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جارہی تھی ان کو ایک دوسری قرارداد کے ذریعے ختم کیا گیا۔ یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ قرارداد لاہور 1940میں بنگال کے ایک مسلم لیگی رہنما مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے پیش کی تھی اور اس کی وضاحت کرنے والی قرارداد بھی بنگال کے ایک مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی نے 1946میں دہلی کے اجلاس میں پیش کی۔ یہ قرارداد آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں ہونے والی کنونشن کے دوسرے اجلاس میں 9اپریل 1946 کو پیش کی گئی۔ اس اجلاس کا آغاز قرآن مجید کی انہی آیات سے ہوا جو مسلم لیگ کے حلف نامے پر لکھی گئی تھیں۔
حسین شہید سہروردی نے جو بنگال اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کے لیڈر اور وزیر اعلی بنگال تھے یہ قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ مسلمانوں کو اس امر کا یقین واثق ہوچکا ہے کہ ہندوؤں کے غلبے سے مسلمانوں کو نجات دلانے کے لئے یہ لازمی ہے کہ ایک بااقتدار اور بااختیار مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے جو شمال مشرقی منطقہ میں آسام اور بنگال اور شمال مغربی منطقہ سندھ پنجاب بلوچستان اور صوبہ سرحد پر مشتمل ہو۔ یہ علاقے جو عام طور پر پاکستانی منطقوں کے نام سے موسوم ہیں اور یہاں مسلمانوں کو غالب اکثریت حاصل ہے ان منطقوں کو بااختیار اور آزاد مملکت کی حیثیت سے تشکیل دیا جائے اور غیر مبہم الفاظ میں اس بات کا عہد کیا جائے کہ بلاتاخیر پاکستان قائم کیا جائے۔
جداگانہ دستور بنانے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے باشندے علیحدہ آئین ساز مجلس قائم کریں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی قرارداد لاہور منظور شدہ 23مارچ 1940 کے اصولوں کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کی اقلیتوں کے لیے آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ کنونشن پرزور طریقے سے اعلان کرتا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی بنیاد پر اگر کسی دستور کو نافذ کیا گیا یا کوئی مرکزی نظام حکومت مسلم لیگ کے مطالبہ کے برخلاف بہ جبر نافذ کیا گیا تو مسلمانوں کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے گا کہ وہ اپنی بقا، ملی زندگی اور وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تمام امکانی ذرائع سے اس کی مزاحمت کریں۔
23 مارچ 1940کو لاہور میں منظور ہونے والی قرارداد پاکستان نے مسلمانان ہند کو وہ حوصلہ، ولولہ اور منزل کا شعور دیا کہ 1946میں ہونے والے انتخابات میں انہوں نے تمام منظر نامہ بدل دیا اور 9اپریل 1946کو ہونے والے دہلی کنونشن نے جو ایک طرح سے مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس کا ہی تسلسل تھا قیام پاکستان کی راہ ہموار کر دی۔