• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شادی بیاہ کی خوش گوار تقریبات صرف دولھا، دلہن ہی کے لیے نہیں، خاندان بَھر کےلیے خوشی و شادمانی کا باعث ہوتی ہیں۔ نئے جوڑے کے لیے یہ ایک نئی زندگی کا آغاز ہے، تو والدین کے لیے خوشی کا باعث کہ وہ اپنی اہم ذمّے داری سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔بے شک وقت پر اچھے اور مناسب رشتے ملنا قسمت کی بات ہے۔ 

تمام والدین کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ بیٹی کی تعلیم مکمل ہوتے ہی یا تعلیم کے آخری مراحل میں کوئی موزوں رشتہ آجائے تو وہ جلد اُس کے ہاتھ پیلے کردیں، جب کہ بیٹوں کے معاملے میں تعلیم کی تکمیل کے بعد برسرِ روزگار ہونے کا بھی انتظار کیا جاتا ہے ، مگر جوں ہی وہ معاشی طور پر مستحکم ہوتا ہے، والدین اس کے سَر پر بھی سہرا دیکھنے کو بےچین ہوجاتے ہیں۔

عام طور پر ہمارے یہاں شادی بیاہ کے معاملات اتنے سادہ اور آسان نہیں ۔ بڑی تگ ودو اور چھان بین کے بعد شادی طے ہونے کا مرحلہ آتا ہے،خصوصاً روایتی گھرانوں میں، جہاں خاندان سے باہر شادی کا رواج ہی نہیں، جوڑ کا رشتہ مل جانا بھی غنیمت ہے۔ اس کے بعد بھی ہر طرح کی چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ مہر، لین دین اور رسوم و رواج کے حوالے سے کئی معاملات طے کیے جاتے ہیں، تب کہیں جاکر تین بار ’’قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے‘‘بولنے کی راہ ہم وار ہوتی ہے۔ ویسے یہ سب کچھ عموماً والدین اور بزرگ آپس میں نمٹا لیتے ہیں، جن کی شادی ہورہی ہو، انہیں مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے، نہ انہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔

لیکن…بدلتی ہوئی دُنیا میں حالات کے ساتھ بہت کچھ بدلا ہے۔ اب بہت سی جگہوں پر بچّے از خود بھی ’’شریکِ سفر‘‘ کا انتخاب کر رہے ہیں اور عقل مند والدین اس صُورت میں بھی اپنی انا کو بچّوں اور اُن کی خوشیوں کے راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ زیادہ پس و پیش کرنے کی بجائے چاہتے، نہ چاہتے ہوئے بھی رسماً لڑکی یا لڑکے کو دیکھنے کے بعد اپنی رضامندی ظاہر کر دیتے ہیں۔

یوں دو خاندانوں کی باہم رضامندی کے ساتھ شادی کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ ابتدا ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا کر انگوٹھیوں کے تبادلے سے کی جاتی ہے۔ پھر اگلے مرحلے میں تاریخ اور جگہ کا انتخاب ہوتا ہے۔ بعدازاں، میرج ہال اور اسٹیج کی جدید تزئین و آرایش، اسٹارٹر اور کھانے کی ڈشز، مہمانوں کی تعداد، دعوت ناموں کی چھپوائی، تقسیم، دولھا، دلہن کے ملبوسات اور دیگر سامان کی خریداری جیسے معاملات اہلِ خانہ کی مصروفیت کم نہیں ہونے دیتے۔

شادی ایک مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی فریضہ ہے، جسے وقار اور سادگی سے انجام دیا جائے، تو زیادہ بہتر ہے۔ اللہ کے نبی ﷺنے کم خرچ والی شادی کو بابرکت کہا ہے۔ اسلام میں شادی نکاح، مہر کی ادائی اور ولیمے کی تقریب پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی خوشی کے اظہار کے لیے چھوٹی بچّیوں کو ہلکے پھلکے گیت گا کر، دف بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کر نے کی اجازت ہے۔

اس کے علاوہ فی زمانہ، جو کچھ شادی بیاہ کی تقریبات کے نام پر ہو رہا ہے،اس کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں۔ پھر بھی اگر زمانے کے ساتھ چلنے کا شوق دامن گیر ہے، ہلّا گلّا کرنا مقصود ہے، منہدی اور مایوں کی رسمیں اچھی لگتی ہیں، توپیلا جوڑا اور ہری چوڑیاںضرور پہنیں، دھنک رنگ بھی بکھیریں، لیکن حیا اور اخلاقی قدروں کا دامن ہرگز ہرگز نہ چھوڑیں۔

وہ حدود، جو ہمارے دین نے قائم کی ہیں، وہ روایات جو ہماری تہذیب اور معاشرت کی بنیاد ہیں، ان کا خاص خیال رکھیں۔ دلہن کے لباس اور میک اپ میں فیشن کا جدید انداز بجا، لیکن سترپوشی اور حیا کا خیال بھی لازم ہے۔پھر کچھ عرصے سے جس طرح دولھا، دلہن کی تصاویر اور مووی بنانے کا رواج عام ہوا ہے، وہ تو کسی طور مناسب نہیں۔ 

بلاشبہ تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہ کر مسّرت کا اظہار کرنے میں ہرگز کوئی قباحت نہیں، مگر خدارا! شادی کی تقریبات کو فلم کی شوٹنگ نہ بنائیں، اِسے ’’شادی‘‘ ہی رہنے دیں۔ نیز، محض خوشی منانے کی خاطر اخلاق سے گری حرکتیں کرنا، رقص و سرود کی محفلیں سجانا انتہائی غیر مناسب عمل ہے، جو اللہ کو سخت ناراض کرنے کے مترادف ہے۔

تازہ ترین