• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم پاکستان کے اس تاریخی دن کی مناسبت سے ایٹمی توانائی کمیشن نے پاکستان کے عوام کو ایک تحفہ دیا ہے۔ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے خدمت کے جذبے سے سرشاریہ قیادت توانائی کے حالیہ بحران سے واقف ہے۔ اس بحران کے حل کے لئے طویل المدتی منصوبوں کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے ساتھ اس کی توانائی کی ضروریات بڑھتی ہیں اور دوسری طرف توانائی کی پیداوار بڑھنے سے ملک کی معاشی اور معاشرتی صورتحال بہتر ہوتی ہے، یہ دوطرفہ عمل ہے۔ جہاں آج کل توانائی کے ذرائع میں نئی نئی جدتیں آتی جارہی ہیں وہاں اس بات کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ ممکنہ توانائی کے حصول کے ذرائع ماحول دوست اور قابل بھروسہ(Reliable) ہوں۔ ایٹمی توانائی بجلی کے حصول کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان دونوں معیارات پر پورا اترتا ہے۔

K-2پلانٹ کی تکمیل چیئرمین ایٹمی توانائی کمیشن جناب محمد نعیم کی ولولہ انگیز قیادت اور ممبر پاور سعید الرحمن صاحب اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے اور وہ بجا طور پر اس مبارکباد کے مستحق بھی ہیں۔ یہ سنگ میل ان کی بہترین منصوبہ بندی اور قائدانہ صلاحیت کی مثال ہے خاص طور پر جب Covid-19کے دنوں میں افرادی قوت اور اس کی نقل و حرکت پر پابندیاں تھیں۔ انہوں نے نیوکلیئر پاور پلانٹ K-2کی بروقت تکمیل کو نہ صرف ممکن بنایا بلکہ اس کی تمام تر حفاظتی Testingکے بعد پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی سے قواعد و ضوابط کی تمام کارروائی بھی بروقت مکمل کی۔

چین کے تعاون سے مکمل ہونے والا یہ پاور پلانٹ جدید ترین ٹیکنالوجی پر مشتمل Generation-IIIکا نیو کلیئر پلانٹ ہے۔ اسی طرح کا ایک اور نیوکلیئر پلانٹ K-3کے نام سے 2022کے اوائل میں نیشنل گرڈ سے منسلک ہو جائے گا اس کی پیداواری صلاحیت بھی 1100میگاواٹ ہوگی اور یوں ماحول دوست قابل بھروسہ اور نسبتاً سستی توانائی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔

پاکستان کے پرامن ایٹمی توانائی پروگرام کی تاریخ 70کی دہائی سے شروع ہو جاتی ہے جب پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے کینوپ کے مقام پر 1972میں کینیڈا کے تعاون سے پہلا ایٹمی بجلی گھر لگایا اور یوں اس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ پاکستان ان چند ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے بہت پہلے ملکی ترقی کے لئے ایٹمی توانائی کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے پرامن استعمال کو اختیار کیا۔ اس پرامن مقصد میں پہلی رکاوٹ اس وقت آئی جب 1974میں ہمارے ہمسائے نے ایٹمی دھماکے کئے۔ اس کی سزا پاکستان کو اس طرح دی گئی کہ اس بجلی گھر کے لئے ایٹمی ایندھن کی فراہمی روک دی گئی۔ اس کھلی ناانصافی نے ہمیں مایوس نہیں کیا بلکہ ہمارے جذبوں کو مزید تقویت دی اور اب پاکستان Nuclear Fuelکی ٹیکنالوجی خود اپنی تحقیق سے حاصل کرچکا ہے۔ اس وقت سے کم و بیش 47سال کے عرصے میں پاکستان نے ایٹمی توانائی کے میدان میں قابل قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی بجلی گھروں کی کارکردگی کا اعتراف بین الاقوامی ماہرین نے بھی اپنی تحریروں میں کیا ہے۔

چشمہ کے مقام پر پاور پلانٹس ایٹمی توانائی کمیشن کی کامیابی کی جانی پہنچانی داستان ہیں۔ چشمہ نیو کلیئر پاور پلانٹس کے یونٹ 1نے 375میگاواٹ سے اپنی کارکردگی کا آغاز کیا۔ یہ پلانٹ 2000سے نیشنل گرڈ سے منسلک ہے۔ 2011میں یونٹ 2نے کام کا آغاز کیا۔ اس طرح یونٹ 3اور یونٹ 4کی کارکردگی کے بعد چشمہ سے 1330میگاواٹ بجلی پاکستان کے نیشنل گرڈ کو مہیا کی جارہی ہے۔ کراچی کے ساحل کے پاس چین کے تعاون سے بننے والے دوسرے ایٹمی بجلی گھر کے بعد انشاء اللہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ان دو بجلی گھروں سے 2200میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی۔

جہاں تک ایٹمی توانائی کے پرامن مقاصد کے استعمال کا تعلق ہے، یہ ہر ملک کا بنیادی حق ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے مزید توانائی کے وسائل کی ضرورت ہوگی۔ دوسری طرف ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا چیلنج بین الاقوامی سیاست اور سفارت کاری کے نشیب و فراز بھی ہیں۔

جہاں تک Energy Securityکا تعلق ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوست ملک چین کے تعاون سے لگائے جانے والے ایٹمی بجلی گھر لمبے عرصے تک پیداواری ایندھن کو ذخیرہ کرنے کی سہولت رکھتے ہیں۔اس طرح لمبے عرصے تک ایٹمی ایندھن سٹور کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے انہیں مسلسل ایندھن کی فراہمی کی ضرورت نہیں جیسا کہ دیگر تھرمل پاور پلانٹ کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں پلانٹ لمبے عرصے کی سپلائی چین مینجمنٹ(Supply Chain Management) اور زرمبادلہ کی قیمتوں کے لمبے عرصہ تک اتار چڑھائو کی مالیاتی الجھنوں سے کافی حد تک محفوظ ہوتے ہیں۔

کوئلے اور فرنس آئل کے برعکس ان سے کاربن ایمیشن(Carbon Emission) کے مسائل بھی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر کوئلے سے چلنے والا پلانٹ ایک کلو واٹ اور بجلی کی پیداوار کے لئے 2.2پونڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ اس طرح سے پٹرولیم کا فیول ایک کلو واٹ آور بجلی کی پیداوار کے لئے 2.1پونڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں نیو کلیئر پاور آلودگی کے مسائل سے بالکل پاک ہے۔

آج کل دنیا میں Sustainable Developmentکا بہت چرچا ہے۔ اقوام متحدہ کے ویژن کے مطابق ذرائع توانائی کے حصول کو اس طرح سے ترقی دی جائے کہ آنے والی نسلوں تک ان کے ثمرات محفوظ اور ماحول دوست طریقوں سے پہنچ سکیں۔

اس سلسلے میں ایٹمی توانائی کے پلانٹ ایک ممکنہ لائحہ عمل مہیا کرسکتے ہیں۔ پچھلے 47سال میں ہم نہ صرف ایٹمی توانائی کی پیداوار کا قیمتی تجربہ حاصل کرچکے ہیں بلکہ ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرِانتظام ایسے ادارے بھی بنا چکے ہیں جہاں اس پیچیدہ ٹیکنالوجی کی تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام ہے۔ ہمارے سائنسدان، انجینئرز اور ٹیکنیشن کسی سے کم نہیں اور ایک سے زیادہ مرتبہ ہم یہ ثابت کر بھی چکے ہیں۔

پاکستان کی ایٹمی توانائی کی پیداوار کا مستقبل بڑے محفوظ اور قابل ہاتھوں میں ہے۔ اس شعبے میں ملکی تعمیر اور اس کی خدمت کے بہت سے مواقع ہیں۔ اب یہ نوجوان نسل کا کام ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالے، ایٹمی توانائی کمیشن نے یہ ثابت کیا کہ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں۔

Yes- We Can

(غلام مصطفیٰ پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر اور مصنف ہیں)

تازہ ترین