• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جرمن ماہر عمرانیات میکس ویبر نے بیسویں صدی کے شروع میں بیوروکریسی کا اپنا ایک ماڈل پیش کیا جس میں انہوں نے بیوروکریسی کے اہم اصول اور خصوصیات پر تفصیل سے بحث کی تھی۔ پاکستان میں بیوروکریسی کے قریبی مشاہدے کے بعد آنجہانی ویبرصاحب کے ماڈل میں بے شمار تضادات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ اِن نقائص اور تضادات پر بحث توکسی اگلے کالم پر چھوڑتے ہیں فی الحال ہم پاکستانی بیوروکریٹس کی مختلف اقسام پر روشنی ڈالیں گے جن کو جرمن ماہر عمرانیات سرے سے ہی نظر انداز کر گئے۔
1۔دین دار بیوروکریٹس:اس قسم کے بیوروکریٹس ہر محکمے میں نظر بد سے بچنے کیلئے ایک دو ضرور ہوتے ہیں۔ یہ نہایت متقی اور پرہیز گار قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ پانچ وقت کے نمازی اور دفترمیں زیادہ تروقت نماز اور اللہ کے ذکر میں گزارتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ”عوامی خدمت “کا اپنا کوٹہ پورا کر چکے ہیں اسلئے اب ان کی ساری توجہ خدا کو راضی کرنے پر ہے۔بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ د نیا کے کام تو بہر حال چلتے ہی رہتے ہیں، اس لئے ماتحت سے دفتری کام کے بارے میں زیادہ بازپرس ضروری نہیں۔ دفترکی میز پر فائلوں کی بجائے عام طور پر مختلف دعاؤں کی کتابیں اور وِرد وظیفوں کے کتابچے پائے جاتے ہیں۔ نوکری سے معطلی اور برخاستگی سے بچنے کا وظیفہ البتہ دفتر کی میز کے بجائے جیب میں رکھتے ہیں۔ قوالی اور سماع کی محفلیں باقاعدگی سے منعقد کرتے ہیں جن میں ماتحت افسروں کی حاضری ضروری ہوتی ہے۔ غیر اسلامی سفارش کرنے اور کروانے کو گناہ کبیرہ اور معاشرے کے زوال کا سبب گردانتے ہیں۔ اسلامی سفارش میں سب سے اچھی سفارش امام ِ کعبہ یا کسی تبلیغی، مذہبی جماعت کے سربراہ کی سمجھی جاتی ہے۔ 2۔ خشک ایماندار بیوروکریٹس: اس قسم کے بیوروکریٹس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہDead Honestقسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اصلاح معاشرہ اور کرپشن، بد عنوانی کے خاتمہ کیلئے ہر دم تیار۔ اس قسم کے کسی بیوروکریٹ کو اگر یہ خبر ملے کہ بوریوالا میں چار افرادانسداد رشوت ستانی پر لیکچر سننے کیلئے تیار ہیں تو لا محالہ ان کا جواب ہو گا کہ انہیں بٹھا ؤ میں پہنچتا ہوں۔ کام کے بارے میں بہت باریک بین، ایک ایک فائل کو باقاعدہ ٹھونک بجا کر اور ناپ تول کر دستخط کرتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسے صاحب کے ماتحت کلر ک اس بات پر شرط لگاتے کہ آج صاحب سے تین فائلیں نکلیں گی کہ چار۔فائلیں جتنی بھی نکلیں مگر کوالٹی پرکمپرومائز بالکل نہیں کرتے۔ ٹھنڈی ہوا کو عام طور پر ماتحت اور عوام کیلئے نقصان دہ سمجھتے ہیں اس لئے اپنے دفتر سے کسی ایسی ٹھنڈی ہوا کا راستہ بند ہی رکھتے ہیں۔ماتحت عملہ چونکہ ہر جگہ کافی بگڑا ہوا ہوتا ہے اسلئے ان پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ 3۔انگریز مزاج بیورو کریٹس:اس قسم کے بیور و کریٹس عام طور پر بہت ہی مہذب ، شائستہ اور نستعلیق قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ بعض محققین کے نزدیک ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے مناسب وقت سے کوئی ایک سو یا ڈیڑھ سو سال بعد پیدا ہوئے ہیں۔ یہ انگریز کے اس برصغیر سے چلے جانے کو سب مسائل کی بنیاد سمجھتے ہیں۔اور عوام اور بیوروکریسی کے درمیان فاصلہ کم ہونے کو حکومت کی رِٹ ختم ہونے کا ذمہ دار۔ یہ افسران سچ کہتے کہ عوام کے کچھ مسائل حل کر دو تو یہ بیوقوف مسائل کا نیا پلندہ لے کرآجاتے ہیں۔ اس لئے کہتے مسئلے مسائل تو ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے مگر اچھی انگریزی ، سگار، ٹائی اور کافی پر کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے۔ بہت خوش لباس ہیں اس لئے ٹائی اور کوٹ لگائے بغیر واش روم جانے کو بھی بد تہذیبی تصور کرتے ہیں۔اس قسم کے بیورو کریٹس کی مزید دو شاخیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو وراثتی طور پر اس مزاج کے ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو نئے نئے اس قبیلے میں شامل ہوتے ہیں ۔ نئے شامل ہونے والوں کو ابتدائی طور پر انگریزی بولتے وقت زبان اور منہ کا باہمی زاویہ کتنے ڈگری پر رکھنا ہے، ٹائی کی ناٹ کے بالکل نیچے ہلکا سا خم کیسے دینا ہے، اور کافی ، سگار کی قسمیں اور ان کے استعمال کے ٹوٹکے وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مگر تھوڑی سی ریاضت کے بعد یہ اچھی طرح Adjust ہو جاتے ہیں ۔4۔سدا بہار بیوروکریٹس:یہ تما م بیور و کریٹس میں سب سے زیادہ کامیاب اورسدا بہار ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ایسے بیور وکریٹس کی ہر دور میں ضرورت رہتی ہے۔ سیاسی موسم اور ادوار کی سختیاں ان کا کبھی بال بیکا نہیں کرسکیں۔ یہ جس ضلع میں تعینات ہوتے ہیں وہاں کی ”مخصوص عوام“، ماتحت اوریہ خود بہت خوش رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ خود کام پر توجہ دیتے ہیں اور کسی کا کام رکنے نہیں دیتے ۔ سچ فرماتے ہیں کام میں جائز اور ناجائز کی تفریق دقیا نوسی لوگوں کے بیمار ذہن کی اختراع ہے۔ فرماتے ہیں قائد نے بھی تو یہی کہا تھا کام کام اور صرف کام۔ گرمی اور سردی کی طرح عزت اور بے عزتی بھی محسوس کرنے سے بڑھتی ہے۔ کامیاب لوگوں کی طرح اس بارے میں بھی بڑی پریکٹیکل اپروچ رکھتے ہیں۔ کامیابی کے راستے میں کسی قسم کے اصول کی دیوار کو آڑے نہیں آنے دیتے۔ پیسے کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں ا سلئے معاشرے میں لوگوں کے ہاتھوں کی میل صاف کرنے کو اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ 5۔فنڈ۔فٹیگ بیوروکریٹس:اس قسم میں بیورو کریٹس کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ ا ن کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ یہ توکل کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اپنے ملازم کو پانچ سو کا نوٹ دیکر پورے گھر کا مہینے بھر کا سودا سلف منگوا لیتے ہیں۔ قلیل تنخواہ میں گھر چلانے کے فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔رشوت کے سخت خلاف ہیں مگر ان کے فقہ کے نزدیک رشوت صرف پیسوں کی صورت میں ہوتی ہے ۔ تحفے ، تحائف اور رشوت میں فرق پراجتہادکی سخت ضرورت ہے۔ سرکاری فنڈز کا بہتر مصرف ڈھونڈتے ہیں۔ بجا فرماتے ہیں کہ محکمے کے اتنے قلیل فنڈ کو محکمے پر خرچ کرنا فنڈ کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ فنڈز پر گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے بعض لوگ انہیں فنڈا مینٹلسٹ بھی کہتے ہیں۔ 6۔ اقبا ل# شنا س بیوروکریٹس:ان بیوروکریٹس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت ہی اقبال# شنا س قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔اِن کی زندگی اقبا ل کے اس شعر کی عملی تصویر نظر آتی ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اس قسم کے بیوروکریٹس کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کا ایک گروپ جب منظر عام پر آرہا ہوتا ہے تو دوسرا مینڈ ک کی طرح Hybernationمیں جا رہا ہوتا ہے۔ اتفاق سے"Guard"کی یہ تبدیلی انتخابات کے قریب قریب ہی عمل میں آتی ہے۔یہ بیوروکریٹس بہت ہی جمہوریت پسند ہوتے ہیں۔ جہاں ”لائرزونگ“ اور ”یوتھ ونگ“ کی اجازت ہے وہاں ”بیوروکریٹک ونگ“ کی اجازت کیوں نہیں؟ سنا ہے اس سلسلے میں عنقریب قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتے ہیں۔والله اعلم۔
تازہ ترین