’’عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کیلئے منتخب کیا تھا، ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لےکر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے، آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت آپ قانون بنا سکتے ہیں لیکن منتخب ادارے ختم نہیں کر سکتے۔ آپ کو کسی نے غلط مشورہ دیا ہے ‘‘۔یہ ریمارکس ہیں چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے۔ انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ حکومت چاہے وفاقی، صوبائی یا بلدیاتی ہو اس کی ایک حیثیت ہوتی ہے آپ اختیارات میں تبدیلی کر سکتے ہیں، بنیادی ڈھانچے کو بھی بہتربنایا جا سکتا ہے لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ نے بلدیاتی حکومتیں کس قانون کے تحت اور کیوں ختم کر رکھی ہیں؟ بلدیاتی ادارےاب تک کیوں بحال نہیں ہوئے؟۔واضح رہے کہ موجودہ بلدیاتی ادارے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013کے تحت قائم ہوئے تھے جنہیں پی ٹی آئی گورنمنٹ قائم ہونے کے بعد آج سے بائیس ماہ قبل مئی 2018 میں ختم کر دیا گیااور ایک سال کی مدت گزرنے کے بعد پنجاب حکومت نے نیا آرڈیننس لاگو کرتے ہوئے بلدیاتی ایکٹ 2019 کے تحت بالفعل تمام بلدیاتی ادارے من پسندافسر شاہی کے ہاتھوں میں دے دیے۔
مئی 2018 میں جب منتخب بلدیاتی ادارے توڑے گئے تو بہت سےبلنڈر کئے گئے۔ مثال کے طور پر لاہور ہی کو دیکھ لیا جائے یہاں 274 یونین کونسلز کام کر رہی تھیں جن میں سےہر ایک کو منتخب چیئرمین اور وائس چیئرمین کے علاوہ آٹھ دس افراد کی منتخب باڈی چلا رہی تھی، نئے نوٹیفکیشن کے تحت ان سب کو فارغ کرتے ہوئے محض ایک شخص کو تمام کی تما م 274 یونین کونسلز کا ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیا گیا جس کے فرائض یا ذمہ داریوں کی تفصیل بیان کی جائے تو یہ سب ناقابلِ عمل دکھائی دے گا، یہ انصرام محض لاہور ہی نہیں، پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں کیا گیا۔ بعد ازاں اس سے بھی بڑا بلنڈر یہ کیا گیا کہ یونین کونسلز کا ریکارڈ یوں پھینکا گیا کہ سائلین اپنی کسی بھی چیز کے حصول کی خاطر رل کر رہ جائیں گےاور جس شخص کو فیلڈ ورکر کے طور پر اتنے دفاتر کا ریکارڈ سونپا گیا ہے وہ ریکارڈ ڈھونڈنے کے نام پر عوام کو ذلیل کرےگا۔ ہے کوئی ذمہ دار جو ان تمام زیادتیوں کی تفتیش کرتے ہوئے ذمہ داران کاتعین کرے؟ شہری علاقوں میں جو ابتری ہے وہ اپنی جگہ، رورل ایریاز کی صورتحال اس سے بھی دگرگوں ہے۔ہر بندہ یہ جانتا ہے کہ یہاں نیا سسٹم یا سسٹم میں بہتری کسی کو بھی مطلوب نہ تھی۔ مدعا محض اس قدر تھا کہ ہم نے کسی بھی طرح سابقہ حکومت کے دور میں منتخب ہونےوالے نمائندوں کو آگےنہیں آنےدینا اور نہ نئےانتخابات کروانے ہیں۔ محض یہ گردان جاری رکھنی ہے کہ ہم نیا سسٹم لا رہے ہیں تاکہ بلدیاتی اداروں کی بحالی عمل میں نہ آ سکے۔ پنجاب کے 36اضلاع میں سے محض ایک ضلع اٹک میں پی ٹی آئی کا میئر تھا باقی تقریباً سب اضلاع میں ن لیگی میئر تھے۔ یہی حال یونین کونسلز سے لے کر دیگر اداروں تک تمام چیئرمینوں او روائس چیئرمینوں کا تھا۔ بھلے مانسو! اگر آپ نے انہیں نہیں آنے دینا تو کم از کم نئے لوگوں کو منتخب ہونے دو لیکن بلدیاتی الیکشن بھی نہیں ہونے دینا اس خوف سے کہ ن لیگی امیدوارجیت جائیںگے مگر بہانہ یہ کہ دو سالوں میں نیا سسٹم نہیں بن پا رہا نیا بہانہ یہ کہ کورونا بہت پھیلا ہوا ہے۔ کوئی یہ تو پوچھے کہ جب ضمنی الیکشن کرواتے ہو تب کورونا کہاں بھاگ جاتاہے اور پھر گلگت بلتستان میں جو عام انتخابات ہوئے تب کورونا کہا ں چلا گیا تھا؟منتخب بلدیاتی اداروں کا تو مدعا ہی یہ ہے کہ لوکل مسائل کو لوکل سطح پر لوکل وسائل سے حل کیا جائے۔ برتھ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ سےلے کر شادی بیاہ اور طلاقوں کے جھگڑوں تک لاتعداد ایشوز ایسے ہیں جو ان مقامی اداروں کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں اور پھر گلیوں نالیوں سے لے کر علاقے کے تمام ترقیاتی و فلاحی منصوبوں تک، کیا یہ تمام شعبہ جاتی امور مقامی قیادت کے ذریعے حل نہیں ہونے چاہئیں؟ آپ لوگوں کا تو بلند بانگ دعویٰ تھا کہ ہم ترقیاتی منصوبہ جات پر عملدرآمد ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ذریعے نہیں، مقامی حکومتوں کی منتخب قیادت کے ذریعے کروائیں گے جب اس نوع کی بیان بازی ہوئی تو جسٹس (ر) محترمہ ناصرہ اقبال صاحبہ کا فون آیا کہ دیکھو ریحان وہ کیا کمال تبدیلی لے کر آ رہے ہیں؟ عرض کی میڈم آپ بھی یہاں ہیں میں بھی ، جب عمل ہو گا تو بات کیجئے گا۔یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ منتخب نمائندوں کے بالمقابل افسر شاہی کی سوچ سوائے ذاتی مفادات اور پھوں پھاں کے اور کچھ نہیں ہوتی۔ عوامی نمائندہ کتنا بھی گیا گزرا ہو اسے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ اگر میں نے اپنے لوگوں کے کام نہیں کروائے تو کل کو ووٹ لینے کس منہ سے ان کے پاس جائوں گا۔ یہی جذبہ اسے عوامی خدمت پر مجبور کرتا ہے، انصاف تو یہ ہے کہ جتنی مدت منتخب قیادت کو معطل رکھا گیا ہے اتنی مدت ہی ان کو اضافی طور پر تفویض بھی کی جائے، اس کے بعد بلاتاخیر اور بلارکاوٹ تسلسل کے ساتھ جمہوریت کو چلنے اور پھلنے پھولنے دیا جائے اسی سے سسٹم کی خرابیاں از خود درست ہوتی چلی جائیں گی۔