• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سوال جو ہر پاکستانی کے ذہن میں انگڑائیاں لیتا رہتا ہے ، کہ پاکستان کے مسائل کا آخر حل کیا ہے۔جب سے میں نے ہوش سنبھالا ، نئی حکومتیں آتی ہیں، بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، پُر جوش تقریریں کی جاتی ہیں، گرم جوشی سے مصافحے اور معانقے کئے جاتے ہیں ، حکومتیں مسائل حل کرنے اور چیلنج قبول کرنے کی باتیں کرتی ہیں اور اپوزیشن کے ارکان حکومت کی صحیح باتوں میں مدد اور بُری باتوں میں مخالفت کرنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ لیکن ہر آنے والی حکومت کے اختتام تک ملک کے حالات پہلے سے بدتر ہوجاتے ہیں اور آج ہم بحثیت قوم اور ملک زندگی اور مو ت کی کشمکش میں ہیں۔
ہمارے مسائل کی فہرست بہت لمبی ہے۔ بہت سے مسائل کا تعلق سیاسی معاملات سے ہے جیسے آئین شکنی اور قانون سے لاپروائی، سیاسی مفادات پر مبنی مفاہمتی یا انتقامی کارروائیاں، حکومتی وسائل کا بے دریغ غلط استعمال، کرپشن ، سفارش، دباؤ، اقرباء پروری وغیرہ وغیرہ؛ کچھ مسائل کا تعلق ہمارے سماجی رویوں سے ہے جن کی وجہ سے ہم ایک بیمار معاشر ے کی شکل اختیار کر چکے ہیں، مثلاً وقت کی بے قدری و عدم پابندی، عوامی مقامات پر گندگی اور غلاظت،ہر جائز و ناجائز ضرورت کو پورا کرنے کیلئے دھونس، اپنے متعلقین کیلئے بناء جانچ پڑتال کے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی عادت، ٹریفک کے اصولوں کی خلاف ورزی، لائن توڑنے کی علت، وی آئی پی کلچر کی بیماری، بے حسی اور لاتعلقی ، طاقت اور دھونس کے سامنے بڑی آسانی سے سر جھکا دینا وغیرہ وغیرہ؛ اسی طرح کچھ مسائل کا تعلق بد ترین اخلاقی بحران سے ہے مثلاًجھوٹ بولنا اورپکڑے جانے کی صورت میں اسکا بُرا بھی نہ منانا، دوسروں کا مال کھانا، حلال اور حرام کی تمیز ختم ہونا، اختیار ملنے کی صورت میں خوب غلط استعمال کرنا، اخلاقی اصولوں کی بات کرنے یا ان پر کاربند ہونے والے لوگوں کا مذاق اُڑانا اور ان کا ناطقہ بندکرنا،کم تولنا، کاروباری اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں ناجائز منافع خوری، بلیک مارکیٹنگ، ماتحتوں کا استحصال ، سرکاری نگرانوں کے ساتھ مل کر صارفین کی لوٹ مار وغیرہ وغیرہ۔اس فہرست میں بہت سے مسائل ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک اور کسی نہ کسی شکل میں ہر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ سارے مسائل حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہیں ۔ بلکہ اگر ہم عصرِ حاضر کے ترقی یافتہ معاشروں کا اپنے معاشرے کے ساتھ تقابل کریں تو یہی سارے مسائل ہیں جو وہاں کم سے کم اور ہمارے ہاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔جب کوئی قوم یا معاشرہ اس حد تک بحران کا شکار ہو جاتا ہے جس حد تک ہمارا معاشرہ ہو چکا ہے ، تو پھر وہ اپنا حقِ حاکمیت کھو دیتا ہے اور دوسری قومیں جلد یا بدیر، براہ راست یا بالواسطہ اس کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہیں۔ مجھے اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ پاکستان اپنا حقِ حاکمیت بڑی حد تک کھو چکا ہے اور اسکے معاملات پاکستانی قوم کی بجائے کہیں اور سے چلائے جا رہے ہیں(یہاں تک کہ ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کا فیصلہ ہونے سے پہلے ان کے انٹرویو لئے جاتے ہیں اور ان سے اہم معاملات کے بارے میں ضمانتیں لی جاتی ہیں)۔
ایسا نہیں ہے کہ بیمار معاشرے کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ جو معاشرے آج ہمیں صحتمند نظر آ تے ہیں وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے۔ کبھی ان معاشروں پر بھی انہی مسائل کی گرد چھائی ہوئی تھی اور اگر ہم کوشش کریں تو ہمارے ہاں بھی ان مسائل کی گرد چھٹنا شروع ہو سکتی ہے۔لیکن کیسے؟؟اس کے کئی طریقے ہیں لیکن آج صرف ایک مئوثر طریقے کے بارے میں بات کرتے ہیں جو بہت سے معاشروں اور ملکوں کا آزمودہ ہے۔جب ملک و قوم کا کوئی رہنما، خواہ وہ سیاسی ہو، مذہبی ہو ، علمی ہو یا سماجی ،مسیحائی کے راستے پر چل پڑے تو اس ملک اور معاشر ے کی تقدیر بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔ ایسا رہنما اعلیٰ سیاسی ، سماجی اور اخلاقی اقدار کی قوت اورمسلسل جدوجہد و قربانی کے آشکار جذبے کی بدولت پہلے قوم کی ایک وسیع اکثریت کا اعتماد اور محبت حاصل کرتا ہے اور پھر اس وسیع اکثریت کے اعتماد اور محبت کی طاقت سے معاشرے میں نئے اداروں اورنئی قومی روایات کو جنم دیتا ہے اور پُرانے و بوسیدہ اداروں اورقومی روایات کا خاتمہ کرتا ہے۔اگر کوئی سیاسی ، مذہبی ، علمی یا سماجی رہنما ان سارے مرحلوں سے کامیابی سے گزر جائے تو وہ اپنی قوم کو کئی صدیوں تک کے سکھ چین اور ترقی کا تحفہ دے جاتا ہے۔اسکے بعد اس معاشرے میں اوسط درجے کے رہنما بھی مسیحاکے قائم کئے ہوئے اداروں اور روایات کے جادو سے ملک کے مختلف معاملات کو چلاتے رہتے ہیں اور ملک آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ہمیں پاکستان کے وجود میں آنے کی تاریخ کے پس منظر میں شائد عجیب لگے لیکن دنیا مانتی ہے کہ گاندھی جی نے صدیوں سے مفتوح ہندوستانی قوم ، اپنے ہم مذہبوں کی غیر صحت مندانہ مذہبی تشریحات اور بوسیدہ سماجی روایات کو کس طرح بدل کے رکھ دیا ۔ آج ہندوستان کی ترقی کے سفر میں اس ایک شخصیت نے نا قابلِ بیان حد تک حصہ ڈالا ہے۔اور تواور مارٹن لوتھر کنگ، صدر اوباما اور نیلسن منڈیلا جیسے قائدین جنہو ں نے پوری دنیا سے عقیدت اور محبت کے نذرانے سمیٹے ہیں ،انکی جدو جہد میں بھی گاندھی جی کی زندگی ایک مشعلِ راہ بنی۔نیلسن منڈیلا ابھی زندہ ہیں،اپنی قوم اور افریقہ کی دیگراقوام کی صدیوں پر محیط غلامی کے خلاف کامیاب جدوجہد کرنے والے نیلسن منڈیلانے بھی مسیحائی کے اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے ملک کے اندر موجود نسلی بنیادوں پر قائم مستقل غلامی کے بندھن سے جنوبی افریقہ کے کالے لوگوں کو آزاد کروایاہے اور پھر اپنے ملک میں نئے اداروں اور روایات کو جنم دے کر دنیا بھر کی دیگر غلام قوموں اور بیمار معاشروں کے رہنماؤں کیلئے ایک مثال قائم کی ہے۔
کیا پاکستان میں ہمیں کوئی ایسی شخصیت نظر آتی ہے جو سیاسی ، مذہبی، سماجی یا عقلی میدانوں میں اس معیار پر پہنچ سکی ہو کہ ہم کہہ سکیں کہ مسیحائی کا سفر شروع ہوگیا تھا یا ہوچکا ہے۔پچھلے پینسٹھ سالوں میں تو ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ہو سکتا ہے کہ میری اس رائے پر آپ کے ذہنوں میں کئی نام ابھرنا شروع ہو جائیں لیکن ان تمام کے تمام شعبوں میں ہماری زبوں حالی بذاتِ خود میری اس رائے کی تصدیق کر رہی ہے، اگرچہ ان میدانوں میں کچھ شخصیات نے کام کرنے کی کوشش ضرور کی ہے اور انہیں تھوڑی بہت کامیابی بھی نصیب ہوئی ہے۔سیاسی حوالے سے ذوالفقارعلی بھٹو کی شکل میں ایک مسیحا ابھر کر سامنے آنا شروع ہواتھا،پہلا مرحلہ تو وہ عبور کر چکے ،لیکن اپنی شخصیت کی خامیوں ، اعلی اخلاقی اقدارو عقلی اصولوں سے پہلو تہی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اور وجوہات کی بنا ء پر ان کے ساتھ بن کھلے ہی مرجھا جانے والا معاملہ ہو گیا۔ چند ایک مذہبی تحریکوں نے بھی اخلاقی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کی کوشش کی ہے، جس میں انکووسیع پیمانے پر کوئی بڑی کامیابی تو نہیں ہوئی البتہ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے معاشرے کو کئی ایک زوردار جھٹکے ضرور برداشت کرنے پڑ ے ہیں۔ اسی طرح سماجی اور عقلی و علمی حوالے سے کوئی بہت بڑی قد آور شخصیت نظر نہیں آتی جس کے بارے میں مسیحائی کے راستے پر گامزن ہونے کا گمان ہو۔
ہا ں البتہ مجھے ایک امید کی کرن پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی شکل میں ہمارے ہاں بھی ایک ایسا سیاسی رہنما ابھر کر سامنے آ چکا ہے جو سترہ سال کی سیاسی اورکوئی بیس بائیس سال کی سماجی جدوجہد اور قربانی کے بعدکامیابی سے پہلے مرحلے (وسیع تر اکثریت کااعتماد اور محبت حاصل کرنے )کو عبور کر چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ دوسرے مرحلے کو بھی کامیابی سے عبور کر پاتا ہے یا نہیں۔ ان میں بہت سی صفات ایسی ہیں جو حوصلہ دیتی ہیں کہ وہ دوسرے مرحلے کو بھی عبور کر جائیں گے ، لیکن ساتھ ہی کچھ خامیوں اور کمیوں کا بھی خیال آتا ہے کہ کہیں ہمارے خواب پھر سے تشنہء تکمیل نہ رہ جائیں۔ مسیحائی کے دوسرے درجے کو عبور کرنا (پُرانے اور بوسیدہ اداروں اور قومی روایات کو ختم کر کے نئے اور صحتمندانہ ادارے اور روایات قائم کرنا) پہلے والے سے کہیں زیادہ کٹھن ہے، حیراں ہوں ، جانے کیا بیتے ہے قطرے پر گہر ہونے تک۔
تازہ ترین