• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باادب باملاحظہ ہوشیار،تشریف لاتی ہیں عالمِ بالاسے اس جہانِ فانی میں بھٹو کی لختِ جگر ، آصفہ ، بختاور اور بلاول کی والدہ ماجدہ، سابق صدر آصف علی زرداری کی زوجہ مکرمہ۔ میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے انہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔’’السلام علیکم محترمہ!‘‘۔

’’وعلیکم سلام‘‘۔’’یہاں آتے ہوئے آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘ ’’تکلیف آتے ہوئے نہیں جاتے ہوئے ہوتی ہے۔‘‘۔’’آپ پاکستان کے حالات سے باخبر ہیں نا؟‘‘ ’’( محترمہ گردن کے پیچھے ہاتھ لگاتے ہوئے ) ابھی تک درد ہوتا ہے ۔ پاکستان کو ہم کیسے بھول سکتا ہے۔‘‘۔’’وہ جو لیاقت باغ کے باہر بم پھٹا ، کچھ اس کے پھٹنے کا واقعہ یاد ہے آپ کو ۔بم کیسے پھٹا تھا؟ ‘‘۔’’(ہنستے ہوئے ) بم کیسے پھٹا تھا ؟۔بم انتہائی شریفانہ انداز میں چلتا ہوا میرے قریب آیا اور نہایت ادب سے کہنے لگا۔محترمہ ! ٹھاہ ۔‘‘

’’چلیں ، چھوڑیں ۔ (مسکرا کر )یہ بتائیں موجودہ وزیر اعظم کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘۔’’بہتر انداز سے حکومت نہیں کرتا۔‘‘۔’’کیا ان میں کوئی بہتری آ سکتی ہے؟‘‘۔’’(مسکراتے ہوئے) ابھی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی‘‘۔ ’’محترمہ! آپ نے پاکستان میں تبدیلی کو محسوس نہیں کیا؟‘‘۔ ’’(مسکراتے ہوئے)۔ تبدیلی؟ ۔۔۔۔۔ تبدیلی کے کیا کہنے۔ مزا آ گیا ہے۔ سارے مسخرے سیاست دان بن گئے ہیں‘‘۔’’پی ڈی ایم کے ساتھ پیپلز پارٹی نے ٹھیک نہیں کیا؟‘‘۔ ’’پی ڈی ایم والے مولانا کے۔۔۔‘‘۔(جملہ کاٹتے ہوئے میں نے کہا)’’یہ مولانا کو جی ایچ کیو جانے کا بہت شوق ہے‘‘۔ (محترمہ غصے سےبولیں ) Let me Finnish میری بات مت کاٹو‘‘۔’’سوری محترمہ۔ مجھے خیال نہیں رہا۔معذرت چاہتا ہوں‘‘۔ ’’ہاں مولانا کو شروع سے وزیراعظم بنانے کا بہت شوق ہے‘‘۔ ’’کوئی ترکیب بتائیں نا انہیں وزیراعظم بننے کی‘‘۔

’’میرے پاس آئیں گے تو بتا دوں گی‘‘۔ (حیرت سے میں نے کہا) ’’آپ کے پاس‘‘۔ (محترمہ صرف ہنس دیتی ہیں اور میں کہتا ہوں) ’’مولانا نے شیروانیاں تو کئی سِلوا رکھی ہیں‘‘۔ ’’انہیں شیروانی کی نہیں وردی کی ضرورت ہے۔ ضیاالدین بٹ والی تو پرانی ہو چکی ہوگی۔ وہیں راجہ بازار سے ایک اور منگوا دیں‘‘۔ (میرا قہقہہ )۔ ’’ہنس کیوں رہے ہو ؟‘‘۔’’تصور کررہا ہوں کہ بلاول اچکن میں، مولانا وردی میں کیسے لگیں گے‘‘۔’ ’شٹ اپ۔ تمہیں سیاست دانوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے ‘‘۔’’آپ نے خود تو کہا ہے۔۔۔۔‘‘(محترمہ بات کاٹتے ہوئے) ’’میں کہہ سکتی ہوں۔ میرے پاس سیاست کا لائسنس ہے‘‘۔’’سیاست کا لائسنس؟ اچھا آئیڈیا ہے۔ حکومت کو سیاست کے لائسنس کا باقاعدہ اجرا کرنا چاہیے‘‘۔

’’نہیں۔۔ہرگز نہیں۔۔۔ہر ذہن کو سیاست کا لائسنس اس کے سیاسی ورک سے ملتا ہے‘‘۔’’ بلاول بھٹو اور مریم نواز کو بھی سیاست کا لائسنس سیاسی ورک سے ملا ہے‘‘۔’’بلاول کا نام نہ لیں ، وہ بچپن سے سیاست کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا ہے۔ ہر عدالت میں ہر جیل میں گیا ہے، اپنے باپ سے ملنے کے لئے ‘‘ ۔ ’’مریم نے بھی آپ کی طرح مولانا کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے ‘‘۔ ’’جو بھی عورت وزیر اعظم بننا چاہے گی وہ مولانا کو ساتھ رکھے گی‘‘۔ ’’کیوں‘‘؟۔ ’’ فتوے کی ضرورت ہوتی ہے ‘‘۔

’’کیا مریم لیڈر بن سکتی ہیں؟‘‘۔’’اسے حکومت چلے جانے کا ڈپریشن بہت ہے‘‘۔’’ہاں وہ بیمار تو ہیں‘‘۔ ’’ﷲ اسے صحت دے‘‘۔’’ نواز شریف کے بارے کچھ ؟‘‘؟’’سندھی محاورہ ہے، ہاتھ سے لگائی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں ‘‘۔’’سنا ہے آپ نے جنرل اسلم بیگ کو پکوڑے بنا کر کھِلائے تھے‘‘۔ ’’ہاں وہ آموں کی پیٹی والے اسلم بیگ۔ 

انہوں نے ایک بہت اعلیٰ کام کیا تھا۔ اس ملک اور قوم کے لئے میں اب بھی انہیں سیلوٹ کرتی ہوں‘‘۔ ’’جنرل ضیا سے ملاقات ہوئی؟‘‘۔’’نہیں کبھی نہیں، پتہ نہیں اُن کا قیام کہاں ہے‘‘۔’’میثاقِ جمہوریت یاد ہے ؟‘‘۔’’مجھے تو یاد ہے مگر یہ سوال آپ کو نواز شریف سے کرنا چاہیے۔

’’سوری محترمہ! میں ابھی انہیں نہیں بلا سکتا ۔ میں صرف عالمِ بالا سے لوگ بلوانے پر مامور ہوں۔ اچھا۔ یہ بتائیں، وہاں زیادہ تر آپ کی ملاقاتیں کن لوگوں سے رہتی ہیں‘‘۔ ’’وہاں فراغت ہی فراغت ہے۔ بہت لوگ ملنے آتے ہیں۔ بظاہر پاپا سے ملنے آتے ہیں مگر زیادہ وقت میرے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔ پرسوں حبیب جالب آئے تھے۔ ان کے ترنم کا سوز کچھ بڑھا ہوا تھا۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔ یہاں مشروب اچھا ہے مگر وہ بات، وہ مستی، وہ سرور۔ لاہور اور کراچی کی محفلوں والا کہاں‘‘۔ 

’’آصف علی زرداری نے بلاول کا نام بلاول بھٹو زرداری کر دیا، آپ کو کیسا لگا؟‘‘۔’’آصف کی ضرورت بھی پوری ہوئی۔ پاپا بھی خوش ہوئے‘‘۔ ’’محترمہ آپ ایک عظیم عورت ہیں۔ بڑے بڑے دکھ برداشت کرکے اِس طرح مسکرانا چھوٹے موٹے لوگوں کا کام نہیں۔ آپ نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ نے باپ کو پھانسی چڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ کے ایک بھائی کو غریب الوطنی میں زہر دے دیا گیا۔ دوسرا بھائی آپ کے دورِحکومت میں پولیس کے ہاتھوں شہید کرا دیا گیا۔ آپ کے شوہر کو نو سال جیل میں گزارنے پڑے، اس کے باوجود آپ مسکرانا جانتی ہیں‘‘۔ ’’شہیدوں کی موت آدمی کو کمزور نہیں کرتی، طاقت دیتی ہے۔

 ’’قائدِاعظم سے بھی ملاقات ہوتی ہے؟‘‘۔ ’’ہاں۔ مجھے کئی بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ خوش نہیں ہیں، کہتے ہیں میری تصویر کی بہت بےحرمتی کی جاتی ہے‘‘۔ ’’ان کی تصویر کی بےحرمتی کرنا تو تعزیراتِ پاکستان میں جرم ہے‘‘۔ ’’وہ اس تصویر کی بات کرتے ہیں جو کرنسی کے نوٹ پر ہے، روپے پر ہے جس کی قیمت روز گر جاتی ہے‘‘۔ ’’ملکی مسائل کا حل کیا ہے؟‘‘۔ ’’بلاول‘‘۔ ’’کہیں آپ کی مامتا تو نہیں جاگ اُٹھی؟‘‘۔ ’’تم بڑے چالاک ہو‘‘۔ (گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے) ’’میرا خیال ہے میں اتنا ہی وقت لے کر آئی تھی۔ خدا حافظ‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین