• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نومبر2020ء سے قبل چینی صوبے، ہوبئی کے مرکزی شہر، ووہان کے لاکھوں باسیوں کو اس بات کا قطعی ادراک نہیں ہوگا کہ اُن کا شہر مستقبل قریب میں اس صدی کی سب سے موذی وبا کے باعث دنیا بھر میں شہرت پائے گا اور وہاں کی فش مارکیٹ سے پھیلنے والا وائرس بنی نوع انسان کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی اوقات بھی یاد دلائے گا۔

نومبر 2020ء سے چند ماہ قبل کی بات ہے، جب ہمیں اپنے آفس کی طرف سے چین کے شہر ووہان جانے کا موقع ملا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق مقررہ وقت پر ائرپورٹ پہنچے، تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ اُس وقت تک ہمارے سان و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم جہاں قدم رنجہ فرمانے جارہے ہیں، چند ماہ بعد وہاں سے پھیلنے والا خوف ناک وائرس پوری دنیا کو یک سر تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ ہمارا ووہان شہر جانے سے قبل بنکاک میں دو روز کا قیام تھا۔

بنکاک سے چین کے شہر،گوانگ زو، مقامی چینی ائرلائن پونے تین گھنٹے میں پہنچادیتی ہے۔ ووہان شہر وہاں سے مزید ایک گھنٹے پچاس منٹ کی مسافت پر ہے۔ تیانہی ائرپورٹ ووہان شہر کے شمال میں پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ علاقے کے دیگر شہروں کے ائرپورٹس کی طرح ووہان ائرپورٹ کی پوری عمارت بھی اسٹیل اسٹرکچر سے تعمیر کی گئی ہے۔ ائرپورٹ کے با اخلاق عملے کا انداز کافی دوستانہ تھا۔

سو، امیگریشن کا مرحلہ بڑی خوش اسلوبی سے طے پاگیا۔ ٹرمنل بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی ہماری نظر سب سے پہلے وسیع و عریض اسکرینز پر لکھے ’’ویلکم ٹوڈونگ فینگ سٹی‘‘ پرپڑی۔ معلوم ہوا کہ ووہان شہرچین کے آٹو موبائل کے بہت بڑے گروپ ڈونگ فینگ کا ہیڈکوارٹر ہے، ان دنوں وہاں ان سے موسوم ’’چائنا اوپن ٹینس ٹورنامنٹ‘‘ جاری تھا۔ ٹینس ایرینا ہمارے ہوٹل سے بہت قریب تھا، جی چاہا کہ میچ کے بہانے خواتین ٹینس کی بڑی بڑی نام وَر کھلاڑیوں کادیدار ہی کرلیں، مگر ایک تو دفتری مصروفیات، دوسرے میچ کے منہگے ٹکٹ نے اس بات کی اجازت نہیں دی۔

ہوٹل میں داخل ہوئے، تو ایک مخصوص چینی شکل کے شخص کو استقبالیے پر براجمان پایا، جس نے بڑی خوش دلی سے اپنا نام ٹونی بتایا۔ ہم نے مزید گفتگو کے لیے انگریزی کا سہارا لیا، تو معلوم ہوا کہ ٹونی صاحب کی انگریزی محض نام بتانے ہی تک محدود ہے۔ دراصل چینی باشندوں کے اصل نام کافی مشکل ہوتے ہیں، تو تلفّظ اور ادائی میں دشواری کے باعث انگریزی کے مستعمل آسان نام مثلاً جیک، رچرڈ، ایلک اور جان و غیرہ بطور فیشن استعمال کیے جانے لگے ہیں۔ اسی طرح خواتین بھی اب جین، آئرس، کیٹ اور کیرول جیسے نام رکھنے لگی ہیں۔ اس کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا کہ ہم جیسے ایشیائی باشندوں کی اب لمبے لمبے مشکل نام یاد رکھنے کی مشکل سے جان چھوٹ گئی۔ووہان شہر، چین کا ساتواں بڑا شہر ہے۔

اس کی آبادی ایک کروڑ سے زائد اور رقبے کے لحاظ سے لندن کے برابر ہے۔اس کے اقتصادی سرگرمیوں کا بہت بڑا مرکز ہونے ہی کی وجہ سے مہلک وائرس کورونانے امریکا، میکسیکو اور برازیل جیسے دُوردراز ممالک تک انتہائی برق رفتاری سے پہنچ کر اس قدر تباہی پھیلائی کہ پوری دنیا اس کے گرداب میں آگئی۔ ووہان ائرپورٹ کا شمار چین کے مصروف ترین ائرپورٹس میں ہوتا ہے۔ کووِڈ 19سے پہلے یہاں سے ایک سال کے عرصے میں تقریباً ڈھائی کروڑ مسافروں نے لندن، پیرس، دبئی اور دیگر شہروں کا سفر کیا۔ ووہان اپنے محلِ وقوع اورخوش گوارموسم کے باعث آج چین کا سیاسی، اقتصادی، کاروباری، ثقافتی اور تعلیمی مرکز بن چکا ہے۔

پاکستان کے بھی بڑی تعداد میں طلباء و طالبات یہاں میڈیکل اورانجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مقیم ہیں۔ یہاں کے خُوب صُورت باغات، جھیلیں، پہاڑی سلسلے اور دل کش دریا ’’یانگزی‘‘ اور ’’ہان‘‘ سیّاحوں کے لیے پُرکشش مقام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے وسط میں ہونے کی وجہ سے سڑکوں، ایکسپریس ویز اور ریل کا بھی ایک جال بچھا ہوا ہے، جس سے ملک کے دیگر بڑے شہر منسلک ہیں۔ ووہان کے جنوب میں ہانگ کانگ، مشرق میں شنگھائی اور شمال میں بیجنگ شہر واقع ہیں۔دریائے یانگزی، شہر کے بیچوں بیچ سے گزر کر اسے دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہے، جسے سول انجینئرنگ کے شاہ کار پُل آپس میں ملاتے ہیں۔

یہ پُل اس قدر قوی الجثّہ ہیں کہ ان کے نیچے سے بحری جہاز تک بآسانی گزر جاتے ہیں۔ یانگزی، لمبائی میں 6300کلو میٹر طویل دنیا کا تیسرا اور ایشیا کا سب سے لمبا دریا ہے، جو چین کو شمالاً، جنوباً دو حصّوں میں تقسیم کرتا ہے اور اس دوران یہ گیارہ صوبوں سے گزرتا ہے۔ اس پر تعمیر کردہ تھری گورجیئس ڈیم دنیا بھر میں پن بجلی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم، آج اس دریا کو شدید آلودگی کا سامنا ہے۔ زرعی کیمیکلز، مصنوعی کھاد اور بحری جہازوں سے پھینکے جانے والے کچرے کے باعث سمندری حیات بھی سخت خطرے سے دوچار ہے۔

نفاست اور برق رفتاری کے ساتھ کھانا پیش کرنے اورکھلانے کا ہُنر چینیوں کو خوب آتا ہے۔ روایتی چائنیز ریسٹورنٹ میں ایک بڑے سے ریوالونگ ٹیبل کے گرد سب لوگ بیٹھے ہیں۔ ٹیبل کا درمیانہ حصّہ ساکت ہے، جس پر گیس کے ایک چولھے پر کڑاہی میں پانی کھول رہا ہے۔ آرڈر کے مطابق کھانے کی مختلف اشیاء کچّی حالت میں چھوٹی چھوٹی پیالیوں اور پلیٹوں میں رکھ کر ٹیبل پرسرو کردی جاتی ہیں۔ مزید ذائقے کے لیے مختلف ساسز اور مسالا جات بھی موجود ہوتے ہیں۔ میزبان باری باری ان تمام اشیاء کو کڑاہی میں شامل کرتا جاتا ہے۔ اُن میں بیف یا مٹن کے باریک لمبے لمبے پارچے، جیسے شارپنر سے پینسل چھیلنے پر لکڑی بل دار شکل میں اترتی ہے۔

انڈے، جھینگے، مختلف اقسام کی مچھلیاں، کیکڑوں سمیت دیگر سمندری مخلوقات، سبزپتّے، ثابت سبزیاں گویا ہر ایسی چیز، جو آپ کو پسند ہو، اُبالی جاسکتی ہے۔ اس دوران تیار ہونے والا سُوپ، پتھر کے سیاہ روایتی پیالوں میں نوش کیا جاتا ہے۔ اسٹارٹرز یا سائیڈ ڈش کے طور پر مولی اور شکرقندی کے اُبلے ہوئے ٹکڑے یا چھلکوں سمیت اُبلی ہوئی مونگ پھلی بھی موجود ہوتی ہے۔ ہم نے سرسوں کے ساگ کو بھی اُبلتے ہوئے سوپ میں ڈال کر بے مزہ کیا، جو اگرچہ کچّا رہا، تاہم پھر بھی کچھ مزہ دے گیا۔ چائنیزچائے یا قہوہ کسی بھی محفل کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔

یہ ذائقے میں خاصا بدمزہ اور پھیکا ہوتا ہے۔ صبح صبح جب اوپر تلے چار کپ ہم نے ختم کر ڈالے اور میزبان خاتون ہر بار کی طرح چینک لیے پھر ہمارے سر پر آن کھڑی ہوئی، تو ہم خاصے کسمسائے، مگر اس نے ہماری بےزاری کا نوٹس لیے بغیر مُسکراتے ہوئے ایک بار پھر کپ بھردیا۔ ہمارے ساتھی محمّد خالد ہماری بے چارگی سے خاصے لُطف اندوز ہو رہے تھے، ہماری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ’’قہوہ لذیذ ہے؟‘‘ ہم نے آنکھوں آنکھوں میں بے بسی ظاہر کی، تو انہوں نے کہا ’’بھائی صاحب! اگلی بار کپ خالی مت کرنا، یوں ہی رہنے دینا، ورنہ شام تک یہی مشقِ ستم جاری رہے گی۔ تم کپ خالی کرتے رہوگے اور وہ بھرتی رہے گی، میٹنگ بھلے بھاڑ میں جائے۔‘‘

روایتی چینی طرزِ تعمیر کا شاہ کار، ’’یلوکرین ٹاور‘‘ ووہان شہر کی خاص پہچان ہے۔ دریائے یانگزی کے کنارے اسنیک ہلز کی چوٹی پر واقع یہ ٹاور سیّاحوں کے لیے بہت کشش رکھتا ہے۔ شروع میں یہ دفاعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ تاہم،1984ء میں خوف ناک آتش زدگی کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ وبرباد ہوجانے کے بعد اسے دوبارہ تعمیرکیا گیا۔ قبل ازیں، چنگ اور منگ خاندانوں کے دورِ حکمرانی میں بھی یہ سات بار اجڑ کر تعمیر ہوا۔ پانچ منزلوں پر مشتمل اس ٹاور کی کل اونچائی166فٹ ہے۔ عمارت کی ہر منزل کی اندرونی دیواروں، سیڑھیوں اور ہال کے کمروں میں موزائیک آرٹ ورک سے مختلف ادوار کی منظرکشی کی گئی ہے۔

وسیع و عریض احاطے میں تعمیر شدہ ٹاور کی عمارت کے اردگرد خُوب صُورت باغ میں کانسی کے بنے زرد بگلے کے مجسّمے سیّاحوں کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں، جہاں وہ اپنی یادگار تصاویر بناتے ہیں، کیوں کہ ٹاور کی بلندی سے شہر کے گرد و پیش کا نظارہ انتہائی دل کش دکھائی دیتاہے۔صنعت و حرفت اور اقتصادی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے ووہان کی سڑکوں پر مقامی اور غیر ملکی برانڈز کی قیمتی، چمچماتی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں۔ شہر کی زیادہ تر سڑکیں اگرچہ بہت کشادہ نہیں، تاہم بڑی بسیں اور گاڑیاں قانون کا احترام کرتے ہوئے نظم و ضبط اور ترتیب سے چلتی ہیں۔ اسٹاپ پرٹھہرنے والی بسوں میں لوگ قطار بنا کر داخل ہوتے ہیں، کسی قسم کا ٹریفک جام نہیں ہوتا۔ سگنلز کی مکمل پاس داری کی جاتی ہے، توڑنے کا تصوّر ہی نہیں ہےاور مرکزی سمیت چھوٹی بڑی تمام سڑکیں ہم وارہیں۔

چوئے ہان اسٹریٹ پر مادام تسائو کا مومی مجسّموں کا میوزیم، شنگھائی اور ہانگ کانگ کے بعد چین کا تیسرا اور دنیا کا پندرہواں بڑا قابلِ دید میوزیم ہے۔ یہاں داخلے کے لیے پہلے سے بکنگ کروانی پڑتی ہے، ٹکٹ بھی خاصا منہگا یعنی تقریباً چار ہزار پاکستانی روپوں کے برابرہے، تاہم اس کے باوجود ٹکٹ کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے سیّاحوں کی میوزیم سے دل چسپی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

میوزیم کی گیلری میں زیادہ تر مجسّمے ایسی شخصیات کے تھے، جن سے ہم ناواقف تھے۔ سو، ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوکرتصاویر بنوانے کے بجائے پیسے بچانے ہی میں عافیت جان کر باہر نکل آئے۔ سوچا کہ موقع ملا تو لندن یا پیرس جا کر دیکھ لیں گے۔ اس سے بہتر تو ہمیں آپٹکس ویلی مال کا علاقہ لگا۔

ایک بہت طویل اسٹریٹ کے اطراف جدید ترین ملٹی اسٹوری شاپنگ مالز کی عمارتوں میں اٹالین، جرمن، اسپینش اور فرنچ طرزِتعمیر نمایاں تھا۔ مالز میں اسپورٹس سے لے کر میک اپ اور مرد و خواتین اور بچّوں کے ملبوسات کے ایک سے ایک برانڈز اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود تھے۔ یہاں دنیا کی نامی گرامی فوڈ چینزکے آئوٹ لیٹس بھی ہیں، جہاں آپ اپنے مزاج اور ذوق کے مطابق ہر طرح کا کھانا تناول فرمانے کے بعد، دنیا کی مشہور ترین چینی کافی سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہ علاقہ شام گزارنے کے لیے ایک بہترین جگہ تصور کی جاتی ہے، جہاں ویک اینڈ پر تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، جب کہ یہاں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔

چینیوں کو انواع و اقسام کی مچھلیاں، فرائیڈ، گرلڈ، ابال کر یاکچّی حالت میں کھانے کے علاوہ سمندر میں بسنے والی ہر مخلوق کا سوپ بنانے میں خاص مہارت حاصل ہے۔ تقریباً تمام ہی ریسٹورنٹس میں جھینگوں اور کیکڑوں سمیت دیگرسمندری حشرات کا سُوپ بڑی رغبت سے نوش کیا جاتا ہے۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ ہم کھانے سے زیادہ ڈر ڈر کرسُوپ پیتے رہے، مبادا پیالے میں سے کوئی دریائی گھوڑا ٹاپیں مارتا ہوا نہ نکل آئے۔ روزانہ سی فوڈ کھا کھاکر اس قدر اکتاگئے کہ ندی، جھیل دیکھتے ہی اس میں چھلانگ مارنے کو جی کرنے لگا۔ ہم نے تہیّہ کرلیا تھا کہ پاکستان جانے کے بعد کم ازکم ایک سال تک مچھلی نہیں کھائیں گے۔

وہ تو بھلا ہو ہماری میزبان کا، جو ہماری حالت بھانپتے ہوئے ایک روز رات کے کھانے کے لیے ایک حلال مسلم فوڈ ہوٹل لے گئیں۔ ہوٹل کے مالک کو جب پتا چلا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، تو اپنا کام چھوڑ کر خاص طور پرہم سے ملنے چلے آئے۔ ان کا تعلق سنکیانگ سے تھا، بڑی محبت سے پیش آئے اور زبان ناآشنا ہونے کے باوجود ہمیں اشارے کنائے میں اطمینان دلایا کہ وہ جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے ہیں، لہٰذا شک و شبے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تاہم، یہاں بھی دنبے کی گردن کے گوشت کا سوپ دیکھ کر کچھ مایوسی ہوئی، مگر اگلے ہی لمحے نمکین تکّے، باربی کیو رانوں، ابلے ہوئے سینے کے گوشت اور چانپوں پر نظر پڑی، تو کچھ اطمینان ہوا۔ ہوٹل کے مالک نے بڑی محبت سے سارے کا سارادنبہ ہمیں قسطوں میں کھلادیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کھانا انتہائی لذیذ تھا، مگرپردیس میں ایسا کھانا کہاں ملتاہے، گویا حق ادا کر دیا۔

ووہان میں ہمارے قیام کے دوران موسم خاصا گرم تھا، مگر حیرت انگیز طور پر مرد و خواتین موٹے موٹے اوور کوٹس اور جیکٹس میں ملبوس نظر آتے تھے۔ وجہ دریافت کی، تو معلوم ہوا کہ سرکاری طور پر فی الحال موسمِ سرما ہی چل رہا ہے اور کچھ پتا نہیں کہ کسی روز اچانک سرد برفیلی ہوائیں چل پڑیں، لیکن ہمیں تو دُور دُور تک اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ چین میں کمیونزم کے اثرات مدہم پڑجانے کے باوجود اب بھی سرخ رنگ کا استعمال کثرت سے نظر آتا ہے۔ شاید چینیوں کو سرخ رنگ کچھ زیادہ ہی بھاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکانوں کے سائن بورڈز سمیت عمارتوں پر بھی یہی رنگ نمایاں دکھائی دیا۔

تازہ ترین