• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلا ہو ’’باپ‘‘ کا اور ’’باپ‘‘ کے سرپرستوں کا جن کی حکمت عملی نے سینیٹ میں’’اپوزیشن لیڈر‘‘ کے انتخاب میں اپوزیشن کے بڑے بڑے لیڈروں کو ’’ایکسپوز‘‘ کر دیا، جب سید یوسف رضا گیلانی کی اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے لئے 30 سینیٹرز کے دستخطوں سے ریکویزیشن جمع کرائی گئی تو اس میں جہاں عوامی نیشنل پارٹی پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑی نظر آئی وہاں ’’باپ‘‘، سابق فاٹا کے ارکان سینیٹ اور جماعت اسلامی بھی اس کی ہمنوا بن گئیں۔ اگر جماعت اسلامی یہ ’’سیاسی گناہ‘‘ نہ بھی کرتی تو بھی سید یوسف رضا گیلانی کی پشت پر کھڑی قوتیں انہیں اپوزیشن لیڈر بنوا ہی لیتیں۔ یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد پہلی بار سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا بیان آیا کہ ’’استعفوں پر دیگر جماعتوں جبکہ اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر ہمارا موقف کمزور ہے، ہمیں باپ کے ارکان سے ووٹ نہیں لینے چاہئے تھے‘‘۔ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا بیان دراصل بلاول بھٹو کا بیان ہی تصور کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے ایک اور سرپرائز بھی دیا ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے بلائے گئے اجلاسوں کا بائیکاٹ ختم کرنے کا فیصلہ کر کے پی ڈی ایم کو سخت دھچکا لگایا ہے۔ پیپلز پارٹی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے جذبہ خیر سگالی کے تحت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو الگ چیمبر بھی الاٹ کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی سے تعلقات بہتر کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے انتخابی اصلاحات پر حکومت سے تعاون کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ دوسری طرف شاہد خاقان عباسی کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں نواز شریف وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کر رہے ہیں‘ نواز شریف، آصف علی زرداری کے ’’طررِ تکلم‘‘ پر سخت نالاں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے سینیٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں تین عشروں سے زائد عرصہ سے مسلم لیگ (ن) کور کر رہا ہوں۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک مضبوط لابی نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’رومانس ‘‘ کے خلاف رہی ہے جب کہ نواز شریف اپنی پارٹی کے بعض رہنمائوں کی آرا کو نظر انداز کر کے آصف علی زرداری کو اپنے قریب تر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جب تک چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) کے پالیسی ساز رہے‘ انہوں نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ’’فاصلہ‘‘ قائم رکھنے کی کوشش کی‘ اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں نواز شریف کی ’’ناراضی‘‘ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اگست 2007ء میں زرداری ہائوس میں مذاکرات کے دوران نواز شریف آصف علی زرداری کے ’’سحر‘‘ میں اس حد تک مبتلا ہو گئے کہ وہ ججوں کی بحالی کے عوض انہیں ’’بلینک چیک‘‘ دینے کے لئے تیار ہو گئے۔ چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف کو اتنا بڑا سیاسی فیصلہ کرنے سے روک دیا جس پر آصف علی زرداری اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ آصف علی زرداری نے ججوں کی بحالی بارے معاہدے سے یہ کہہ کر برات حاصل کر لی کہ یہ کوئی صحیفہ تو نہیں ۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری میں رومانس ہی تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر تعزیت کے لئے پوری جماعت لے کر لاڑکانہ پہنچ گئے۔ انہوں نے آصف علی زرداری کا انتخابات میں حصہ لینے کا مشورہ قبول کر لیا۔ مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کا حصہ بن گئی۔ آصف علی زرداری نے جج بحال کرنے سے انکار کیا تو ڈیڑھ ماہ بعد ہی نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان رومانس ختم ہو گیا۔ نواز شریف نے ججوں کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کر کے جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر وا کے پیپلز پارٹی پر مستقل عذاب مسلط کر دیا اور پھر کالا کوٹ پہن کر نواز شریف میمو گیٹ اسکینڈل میں سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسر اقتدار آئی تو آصف علی زرداری کو باوقار طریقے سے ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔ 2014ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایجی ٹیشن کے ذریعے ختم کرنے کی سازش کو ناکام بنانے میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ آصف علی زرداری نے ایک تقریب میں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو کیا للکارا‘ اگلے روز نواز شریف نے آصف علی زرداری کی طرف سے دیا جانے والا ظہرانہ ہی منسوخ کر دیا۔ آصف علی زرداری کو اس ’’گستاخی‘‘ پر ڈیڑھ سال تک دبئی میں ’’خود ساختہ‘‘ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ حالات کے ’’جبر‘‘ نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو کبھی اکھٹا کر دیا اور کبھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ مریم نواز پیپلز پارٹی کو ہمنوا بنانے کے لئے بے نظیر بھٹو کی برسی کے جلسہ اور بختاور کی شادی کی تقریب میں جا پہنچیں لیکن اب یہ سب کچھ مفادات کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی نے تمام متاثرہ جماعتوں کو پی ٹی آئی کے خلاف صف آرا تو کر دیا لیکن یہ آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) سمیت ان تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا جو یہ سمجھتی تھیں کہ ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر کے انتخاب میں ایک بار پھر اپنا الگ کھیل کھیلا ۔ انہوں نے بلوچستان کی حکومت گرانے میں جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی‘ وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پی ڈی ایم کا شیرازہ اپنے قیام کے چھ ماہ بعد ہی منتشر ہوتا نظر ا ٓرہا ہے‘ اس میں کمال ’’کپتان‘‘ کا نہیں بلکہ اتحاد میں شامل بعض جماعتوں کے مفاد کا ہے۔ سینیٹ میں کپتان کے امیدوار کو شکست دینا مقصود تھا تو پوری اپوزیشن متحد ہو گئی لیکن چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کے سات ارکان نے دانستہ اپنے سات ووٹ مسترد کرا دئیے۔ پی ڈی ایم نے اپوزیشن لیڈر کی نشست مسلم لیگ (ن) کو دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن آصف علی زرداری نے حکومتی اتحاد کے ارکان سے مل کر اپنا اپوزیشن لیڈر بنوا کر پوری اپوزیشن کو حیران و ششدر کر دیا۔ ان کے اس طرزِ عمل سے دونوں کے درمیان رومانس ختم ہو گیا۔

تازہ ترین