• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار میں آنگ سانگ سوچی حکومت کی برطرفی کے بعد فوج نے عوامی بغاوت کو کچلنے کیلئے جس طرح بہیمانہ قتلِ عام شروع کیا ہے، اس سے دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کے رد عمل میں امریکا اور یورپی یونین نے فوجی حکومت کے خلاف کئی پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔ حالانکہ جب سوچی اور فوج کی ہائبرڈ حکومت روہنگیا مسلمانوں پر حملے کرکے انہیں قتل یا زخمی اور سینکڑوں خواتین کی عصمت پر حملے کر رہی تھی تو اس وقت چہار اطراف خاموشی ہی خاموشی تھی حتیٰ کہ اسلامی کہلانے والے ممالک بھی تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ اس وقت سربراہانِ مملکت میں ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کچھ آواز اٹھائی اور ان کی بیگم نے بنگلہ دیش میں رفیوجی کیمپوں میں جاکر ان کی خبر گیری کرکے دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی۔ اگرچہ ترکی اب بھی ان کی مالی اور اخلاقی امداد کرنے میں سرفہرست ہے مگر خطے میں روہنگیا مسلمانوںکے مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔

جمہوریت کی دعویدار اور نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی، جنہوں نے کئی بر سوں تک فوج کے ساتھ مل کر ایک ہائبرڈ طرز کی حکومت کی ،نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث فوج کی طرفداری کی یہاں تک کہ انھوں نے عالمی سطح پر بھی ان کی وکالت کی اور نسل کشی کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔ دنیا کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے سوچی اور اس کی فوج نے روہنگیا مسلمانوںکی نسل کشی جاری رکھی جس سے اب تک کئی ملین افراد ملک بدر ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ قتل و غارت اور نسل کشی کی اس مہم میں میانمار کی بودھ اکثریت نے کھل کر اپنی فوج کا ساتھ دیا۔ مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ میرے ایک برمی کولیگ جنہوں نے کئی سال اقوام متحدہ میں کام کیا اور انہیں متعدد مسلمانوں کی قربت اور معیت حاصل رہی، بھی کھلے عام سوشل میڈیا پر اپنی فوج کے حق میں لکھتے رہے۔

اسے مکافاتِ عمل ہی کہا جاسکتا ہے کہ اسی فوج نے اب سوچی کو بڑی بے عزتی سے حکومت سے بیدخل کردیا ہےاور ان کے حامیوں کو اسی طرح قتل و غارت کا نشانہ بنا رہی ہے، جیسے وہ روہنگیا کے ساتھ کرتی آرہی ہے۔ اب وہی لوگ جو روہنگیا اقلیت کے ظلم و ستم پر اپنی فوج کی ستائش کر رہے تھے، دنیا کو برمی فوج کی قتل و غارت روکنے کی دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ اطراف سے ہونے والی مذمت اور مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود میانمار کی فوج فی الحال ٹس سے مس ہوتی دکھائی نہیںدےرہی۔

روہنگیا کو دنیا کی وہ قوم کہا جاتا ہے جن کا کوئی دوست نہیں۔ میانمار کی بودھ اکثریت انہیں ملک کا شہری ماننے سے انکاری ہے اور انہیں بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے، جسے بنگلہ دیش مسترد کرتا ہے۔ گو کہ اس وقت سب سے زیادہ رفیوجی بنگلہ دیش میں ہی ہیں ، جن کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہے مگر انہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے بھی مسلسل سرد مہری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چند دن پہلے کاکسز بازار بنگلہ دیش میں قائم ایک بہت بڑے رفیوجی کیمپ میں بھیانک آگ لگ گئی جس سے وہاں سب کچھ چل کر راکھ ہوگیا۔ دس ہزار سے زائد خاندانوں کی پناہ گاہیں تباہ ہوگئیں ، لگ بھگ پچاس ہزار افراد متاثر ہوئے۔

اس کے علاوہ صحت عامہ اور تعلیم کی درجنوں تنصیبات اور خواتین کی امداد کرنے والے فنی مراکز بھی تباہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ دو درجن افراد جاں بحق اور سینکڑوں لاپتہ ہوگئے۔ اگرچہ بنگلہ دیشی حکومت نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات شروع کردیے ہیں تاہم کئی متاثرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ شاید حکومت انہیں وہاں سے بیدخل کرنے کے پلان پر عمل پیرا ہے۔

گزشتہ سال سے بنگلہ دیشی حکومت نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے احتجاج کے باوجود ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوںکو ان کی مرضی کے خلاف ایک دوردراز اور غیر آباد جزیرے پر منتقل کردیا جہاں ان کی روزمرہ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوگئی۔ چالیس ہزار کے قریب روہنگیا کئی سالوں سے بھارت میں بھی مقیم ہیں جن میں ریاست جموں و کشمیر کے صوبہ جموں میں لگ بھگ پانچ ہزار بستے ہیں۔ 2014 میں بی جے پی حکومت کے بعد انہیں ہندو شدت پسندوں اور سرکار نے طرح طرح سے تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ حال ہی میں پولیس نے ان کے خلاف نئی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہیں واپس میانمار بھیجنے کی دھمکی دی ہے جہاں مہاجرت سے بھی زیادہ اذیت ناک زندگی ان کے انتظار میں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین