• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختلف وجوہ سے بیشتر سیاسی جماعتیں عمران خان کی حکومت کو عوام کی نمائندہ حکومت کا درجہ دینے کو تیار نہیں اور ’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ ہماری سیاسی لغت میں داخل ہو گیا ہے۔ صاحبِ اقتدار تحریکِ انصاف کی انتہائی مایوس کن کارکردگی عوام پر بجلی بن کے گر رہی ہے جو اُن کا محدود سا سرمایۂ زیست خاکستر کیے دیتی ہے اور اَبتر حکمرانی کا عفریت روح کو فنا کیے دے رہا ہے۔ اِس جاںکنی پر جب عوام کے اندر شدید بےچینی پیدا ہوئی، تو وزیرِاعظم کے ترجمانوں، مشیروں اور وزیروں نے یہ عذر تراشنا شروع کر دیا کہ اپوزیشن حکومت کے منصوبوں میں رخنے ڈال رہی ہے اور اِکھٹے ہونے اور تعمیری کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

اِس مستقل طعنہ زنی سے طیش میں آ کر بلاول بھٹو زرداری نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں کو کھانے کی دعوت دی اور کئی گھنٹوں کے غوروخوض کے بعد پی ڈی ایم کے قیام کا اعلان ہوا۔ اِس اتحاد کے مولانا فضل الرحمٰن صدر جبکہ شاہد خاقان عباسی سیکرٹری جنرل چُنے گئے۔ 26 نکات پر اتفاق ہوا جن میں ملک بھر میں جلسے جلوس منعقد کرنا، اسلام آباد میں دھرنا دینا اور اسمبلیوں سے مستعفی ہو جانا، جیسے انقلابی اقدامات شامل تھے۔ پی ڈی ایم نے پورے ملک میں بڑےبڑے جلسے کیے اور کورونا وائرس کے باوجود عوامی تحریک زور پکڑنے لگی۔ تب حکمرانوں کو احساس ہوا کہ ہم بہت بڑی سیاسی بےتدبیری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اُنہی دنوں ریاستی اداروں کے اندر بھی یہ سوچ ابھرنے لگی کہ عمران خان نے حقیقی تبدیلی لانے، عوام کے دلدر دُور کرنے اور پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے جو وعدے کیے تھے، اُن میں عملیت کا عنصر ناپید ہے۔ کابینہ میں پچاس سے زائد جو وزرا اور مشیر شامل تھے، اُن میں کوئی صلاحیت ہے نہ کوئی وژن، چنانچہ اُن پر نااہلی، بددیانتی اور مافیاؤں کی سرپرستی کے تازیانے برسنے لگے۔

مولانا فضل الرحمٰن بلاشبہ ایک ذہین سیاست دان ہیںمگر مختلف مواقع پر وہ ایک اچھے حکمت ساز ثابت نہیں ہوئے۔ ایک بار اپوزیشن کی بڑی جماعتوں سے معاملہ فہمی کے بغیر تنِ تنہا اسلام آباد دھرنا دینے چلے آئے جو بلاشبہ بےحد منظم اور پُرامن تھا، مگر اُنہیں بڑی بےچارگی سے دھرنا منسوخ کرنا پڑا۔ اِسی طرح سیاسی بےتدبیری کا اُس وقت مظاہرہ ہوا جب اُنہوں نے لانگ مارچ کا پروگرام استعفوں کے ساتھ منسلک کر دیا، حالانکہ پیپلزپارٹی کی قیادت استعفے دینا نہیں چاہتی تھی۔ اُس کا اصرار تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اُس نے بڑی مہارت سے سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے انتخابات کے میدان میں اُتار دِیا۔ قومی اسمبلی سے جب یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہو گئے، تو وزیراعظم پر اعتماد کا ووٹ لینا لازم ہو گیا۔ اُن کے لئے یہ مرحلہ حددرجہ جاں گسل تھا۔ وہ جو ڈھائی سال تک ارکانِ اسمبلی سے ملنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے، اُنہیں اپنی روش تبدیل کرنا پڑی۔

آگے چل کر پیپلزپارٹی بھی سیاسی بےتدبیری کا شکار ہو گئی اور اُس نے سینیٹ میں قائد ِ حزبِ اختلاف کی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے کمک حاصل کی جو تحریکِ انصاف کی اتحادی ہے۔ اِس بےاصولی پر اعتزاز احسن، سینیٹ کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی اور پیپلزپارٹی کے مرکزی لیڈر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سخت اعتراض کیا۔ پارٹی میں یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا تھا کہ پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے اے این پی اور پیپلزپارٹی سے یہ وضاحت طلب کر لی کہ اُنہوں نے ’باپ‘ کی حمایت سے یوسف رضا گیلانی کو قائد ِحزبِ اختلاف کیوں بنوایا۔ اُن کا یہ اقدام بھی سیاسی بےتدبیری کی ذیل میں آتا ہے جس نے پی ڈی ایم کے وجود کو شدید ضعف پہنچا دیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی تعلقات کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ محترمہ شیری رحمٰن ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے فرما رہی تھیں کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے مابین دیرینہ نظریاتی رشتے ہیں، مگر وہ شاید یہ بھول گئی ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی کو وزیراعظم بھٹو ہی نے غیرقانونی قرار دِیا تھا۔

اپوزیشن کے ساتھ بدترین محاذآرائی کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ باہر کی دنیا میں پاکستان کے وزیراعظم کا سیاسی وزن تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ دو ماہ سے زائد ہونے کو آئے ہیں، لیکن نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے اُن سے ٹیلی فون پر بات نہیں کی۔ ماحولیات کے موضوع پر عالمی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے جس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ سینیٹر کیری جو پاکستان سے خیرخواہی کی شہرت رکھتے ہیں، وہ جنوبی ایشیا کے ممالک کا دورہ کر رہے ہیں، مگر اِن ممالک میں پاکستان شامل نہیں۔ اپوزیشن کے دباؤ ہی پر جناب عمران خان میں اپنی غیرجمہوری پالیسی تبدیل کرنے کا احساس جاگا ہے، چنانچہ وہ انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں اپوزیشن کے تعاون کے شدت سے طلب گار ہیں اور اپنے ترجمانوں سے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کو ہدفِ تنقید بنائے رکھنے کے بجائے اِنہیں حکومت کی کارکردگی کا پرچار کرنا چاہئے۔ پالیسی کی یہ تبدیلی اگر حقیقی ہے، تو اِس کا خیرمقدم کرنا چاہئے کہ فقط تنقید کے نشتر چلاتے رہنے سے آرزوؤں کی نشوونما نہیں ہوتی جس کے لئے ذوقِ سفر اور تخلیقی امنگ بھی ضروری ہے۔ جمہوری قوتوں کی متحدہ کوششوں ہی کے نتیجے میں جناب وزیرِاعظم اب اِس حقیقت کا برملا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مہنگائی اِس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے اور وہ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر غالباً ماہرِمعاشیات شوکت ترین کو اپنا مشیرِخزانہ یا وزیرِخزانہ بنانے کا فیصلہ کر چکے ہیں جنہوں نے ذمےداری سنبھالنے سے پہلے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ڈھائی برسوں میں ملکی معیشت کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ نظام بدلنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو رواداری اور پختگی کا ثبوت دینا اور قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا۔ آج پی ڈی ایم کو بھی داخلی چیلنج درپیش ہے۔ اِسی طرح جہانگیر ترین تحریکِ انصاف سے انصاف مانگ رہے ہیں اور ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین