• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:شاہد رند

گزشتہ ہفتے ٹویٹر پر ایک خبر نظر سے گزری اور اب بلوچستان میں نئے صوبے یا جنوبی بلوچستان صوبے کے قیام کے معاملے پر قوم پرست جماعتیں ہا ہاکار مچا رہی ہیں ایسا کیا ہواہے کہ اچانک ایک بار پھر گوادر سی پیک نشانے پر ہے ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوایا نہیں ہو رہاہے جب کبھی حالات بہتری کی جانب جانے لگتے ہیں تو ایک ہدف کیساتھ سی پیک یا اسکے منصوبوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن دو خبروں کو دیکھ کر لگا کہ کسی خاص مقصد کے تحت ایک بار پھر کچھ عناصر سرگرم ہوئے ہیں اور ڈس انفارمیشن کے زریعے صورتحال کو مزید کشیدہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں چند روز قبل جیسے ہی ایران اور چین نے ایک معائدے پر دستخط کردیئے جسکے تحت ایران میں چین بھاری سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے اس حوالے سے چند ماہ قبل ہی ایک تحریر بڑی خبر اور بڑے فیصلے کے نام سے لکھ چکا تھا لیکن اب ایک بار پھر اس موضوع پر کیوں لکھنا ضروری ہے اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین ایران معائدے کے بعد ایک بیان چینی وزیر خارجہ سے منسوب کرکے بڑے جید صحافیوں اور دانشوروں نے یہ بتانے کی کوشش کی یا سعی کی کہ سی پیک کا منصوبہ ختم ہوچکا ہے اب چین کی توجہ کا مرکز پاکستان نہیں ایران ہے اور میری دانست میں ایسا ممکن نہیں ہے چین کو اسوقت ایران اور پاکستان دونوں کی ضرورت ہے وہ کیوں ہے اسکے لئے اپنی پچھلی تحریر کی چند لائنیں یہاں درج کررہا ہوں کہ چین گوادر کے بعد ایران کیساتھ کیوں معاشی تعلق کو مضبوط کررہا ہے اس پر بحث مباحثے سے قبل یہ جان لیں کہ جب میر حاصل خان بزنجو مرحوم جہاز رانی و بندرگارہ اور میری ٹائم سیکیورٹی کے وفاقی وزیر تھے تو چاہ بہار پورٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر انہوں نے ایران کیساتھ ایک مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کئے تھے جس میں گوادر اور چاہ بہار کی بندرگاہ کو سسٹر پورٹ بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا اور یہ سب اسوقت ہو رہا تھا جب بھارت نے چاہ بہار پورٹ پر بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کررکھا تھا جب وطن واپسی پر میں نے میر حاصل خان بزنجو سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ چین گوادر تک نہیں آئیگا چین نے براستہ گوادر ایران تک جانا ہے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ گوادر اور چاہ بہار پورٹ ایک دوسرے کے مد مقابل پورٹس ہونگی وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں آج لکھ لو یہ مفاہمتی یاد داشت ایک ایسے معاشی گیم چینجر منصوبے کا ابتدائی ڈاکیومنٹ نہ کہلایا تو پھر آکر کہنا میر حاصل خان آپ غلط تھے میر حاصل خان کا ویژن اور انکی سوچ اپنے والد بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کی کی طرح دور اندیش تھی اس بات کا صرف میں نہیں بلکہ انکے مخالفین بھی اعتراف کرتے تھے اور پھر میر حاصل خان بزنجو نے مجھے نقشے کو سامنے رکھ کر سمجھادیا کہ چین کیا سوچ رہا ہے کاش آج ہمارے جید صحافی اور دانشور بھی کسی ٹویٹر ٹرینڈ کو فالو کرنے یا کسی خاص مقصد کے تحت پروان چڑھانے کیلئے مصدقہ یا غیر مصدقہ چیز کو کیوں درست سمجھ کر اپنی رائے دے دیتے ہیں تھوڑی دیر کیلئے نقشہ اٹھا کر دیکھ لیتے کہ چین پاکستان یا پھر گوادر کے بغیر ایران تک رسائی تو حاصل کر سکتا ہے لیکن اسٹیٹ آف ہر مز کے دھانے پر موجود سی پیک کے جھومر گوادر کو چھوڑ کر چاہ بہار میں بیٹھنا چین کیلئے کوئی فائدے کا سودا نہیں ہو سکتا ہے اسلئے گوادر اور چاہ بہار میں بیک وقت چین کی موجودگی اسے بہت سی عالمی طاقتوں اور خلیجی ممالک کے سامنے نہ صرف مضبوط اور مستحکم رکھے گی بلکہ ایران اور پاکستان کو اسکا فائدہ پہنچے گا بلکہ میری دانست میں پاکستان کو فائدہ پہنچ بھی رہا ہے ایسے ہی خلیجی ممالک کے بگڑتے تیور درست نہیں ہوئے ایسے ہی بھارت کی جانب سے مودی سرکار بھی پریم پتر نہیں لکھ رہی ہے یہ سب کسی سبب ہو رہا ہے روسی وزیر خارجہ بھی کچھ سوچ سمجھ کر نؤ سال بعد پاکستان کے دورے پر آئے ہیں ان سب باتوں میں عقل والوں کیلئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں اسلئے ہمارے جید صحافی اور دانشور کسی معاملے پر کوئی رائے قائم کرنے سے قبل یا اپنی خواہشات کے اظہار سے قبل سوچ لیا کریں کہ جو کچھ پھیلایا جارہا ہے اسکا نقصان کسے ہوگا کیا پاکستان کا نقصان انکا نہیں ہوگا اگر وہ یہ سوچ لیں تو بہت سے مسائل کھڑے ہی نہ ہوجن دنوں سی پیک کو لیکر یہ شور و غوغا اٹھ رہا تھا انہی دنوں بلوچستان میں گوادر میں ایک نئے سیکریٹریٹ کے قیام کا معاملہ ویسے ہی الجھ گیا جیسے چین اور ایران معائدے کے معاملے کی خبر کو الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے معاملے کو بلوچستان کی تقسیم کی سازش قرار دیدیا ہے جیسے چین ایران معائدے کی خبر کو اینگل کئے جانے کے معاملے پر کے معاملے پر ہماری وفاقی وزارت اطلاعات خاموش رہی اور پی ڈی ایم کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف رہی ویسے ہی بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی گوادر سیکریٹریٹ کے قیام کے معاملے پر قوم پرستوں کے شور شرابے سے بے خبر شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبائے بیٹھی ہے جیسے اس معاملے سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے میری زاتی رائے کافی عرصے سے یہ ہے کہ بلوچستان جو کہ ملک کا نصف حصہ ہے اسے کوئٹہ سے بیٹھ کر آپریٹ کرنا دانشمندی نہیں ہے اور گوادر کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے کار سرکار کو وہاں سے چلانے سے بہت سے فیصلوں میں آسانی ہوگی اور اس سے یہ شہر جلد ترقی کرسکے گا لیکن قوم پرست جماعتوں کے شور و غوغا کے بعد جب خبر کی حقیقت کو تلاش کیا تو میرے ہاتھ آنے والے نوٹی فکیشن میں واضح لکھا ہے کہ حکومت بلوچستان ایک

عمارت کو گوادر پورٹ اتھارٹی سے کرائے پر لینا چاہتی ہے جہاں پر ساؤتھ بلوچستان سیکریٹریٹ قائم کیا جائیگا اسکے لئے کچھ معاملات پرگفت و شنید اور اجلاس یا میٹنگ بلانے کی درخواست کی گئی ہے کہیں بھی نئے صوبے کے قیام کی بات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اسے بلوچستان کی تقسیم سمجھا جائے بلکہ میری دانست میں بلوچستان میں گوادر میں اگر ایک ایڈیشنل سیکریٹریٹ قائم کیا جاتا ہے تو اسکا فائدہ نہ صرف گوادر اور اسکی ترقی کو ہوگا بلکہ اس کی مدد سے مکران ڈویژن کے تمام اضلاع مستفید ہونگے تاہم ان دونوں خبروں پر وفاقی اور صوبائی حکومت کی خاموشی سے مسائل بڑھ تو سکتے ہیں کم نہیں ہوسکتے ہیں ہماری حکومتوں چاہے وہ وفاقی ہوں یا صوبائی ان کی ترجیحات کچھ بھی ہوں پاکستان کو جو محل وقوع ملا ہے وہ اللہ کی کسی نعمت سے کم نہیں ہے اسلئے حکمران غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں لیکن عوام مطمئن رہیں سی پیک اور بلوچستان کیخلاف سازشیں تو کی جاسکتی ہیں ختم نہیں کیا جا سکتا ہے اسلئے مطمئن رہیں نہ تو سی پیک کو کوئی خطرہ ہے نہ بلوچستان تقسیم ہونے جارہا ہے۔

تازہ ترین