میں گزشتہ ہفتے 9اپریل بروز جمعہ المبارک معمول کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف تھا کہ حیدرآباد سے میرے بھائی کی فون کال موصول ہوئی کہ بڑے بھائی ڈاکٹر پریم کمار وانکوانی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، دل کا یہ دورہ میرے پیارے بھائی کیلئے جان لیوا ثابت ہوا اور وہ ستاون سال کی عمر میںآناََ فاناََ یہ فانی دنیا چھوڑ کر تمام جہانوں کے مالک سے جاِملے۔بطور کالم نگار لکھاری یہ میری پہلی تحریر ہے جسے قلمبند کرتے ہوئے میں اپنے آنسوؤں روک نہیں پارہا، ایسی ہی نازک صورتحال کا سامنا مجھے بتیس سال قبل 29مئی1989 کو کرنا پڑا تھا جب میرے محترم والد سیتل داس اڑتالیس سال کی عمر میں ہمیں روتا ہوا چھوڑ گئے تھے، تاہم یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمیں پریم کمار جیسا پیار کرنے والا بڑا بھائی ملا جس نے ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، جس نے باپ کی کمی ہمیں کبھی محسوس نہ ہونے دی، ان کو ہمارے خاندان کا ہر چھوٹا اور بڑا بابا کے نام سے پکارتا تھا۔آج بچپن اور ماضی کی تمام یادیں میری نظروں کے سامنے گھوم رہی ہیں ، میں ہمیشہ سے یہ کہتا ہوں کہ یہ دنیا فانی ہے، انسان آئے بھی اکیلا جائے بھی اکیلا، دو دن کی زندگی ہے دو دن کا میلہ، آج مجھے عملی طور پراپنے بڑے بھائی سے اچانک بچھڑنے کے ناقابل ِ برداشت دُکھ کا سامنا ہے اور ہمارا خاندان شدید صدمے کی حالت میں ہے، ہمارا ذہن یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ ہمارا پیارا بڑابھائی آج ہمارے درمیان نہیں ہے۔ میرے نرم دل بھائی نے پوری زندگی اعلیٰ خاندانی اقدار کو مستحکم کرنے میں گزاری، وہ بڑوں کا احترام کرتےاور بچوں سے مہربان تھے، ان کی زندگی کا مقصد انکساری، عاجزی، انسانیت کی خدمت اور خدا کی خوشنودی کا حصول تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد سب انہیں اچھے الفاظ سے یاد کررہے ہیں۔ میں اپنے کالم میں وانکوانی پریوار کے کچھ بچوں بشمول لتا،جے پی،اجیت، کویتا، سویتا،انجلی، ریکھا،ہریش وغیرہ کے تاثرات بھی پیش کرنا چاہتا ہوںجو انہوں نے ان کی اعلیٰ شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بھیجے ہیں۔’’ہمارے بابا ایک عظیم اور ذہین انسان تھے جنہوں نے ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا، آج وہ ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی یادیں ہمیں زندگی کے ہر محاذ پر کامیاب ہونے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں، ہمیں اپنے خاندان کی یکجہتی پر فخر ہے، وانکوانی خاندان کو متحدرکھنے میں سب سے اہم کردار ڈاکٹرپریم کمار وانکوانی کا ہے، حصولِ کامیابی کیلئے ہمیں اپنے بابا کے نقش قدم پر چل کراعلیٰ روایات کو آگے بڑھانا ہوگا،پریم کمار سب بچوں سے اپنی حقیقی اولاد کی مانند پیار کرتے تھے۔‘‘میرے بھائی نے اپنی پوری زندگی پیار محبت کا جو درس عام کیا، مجھے فخر ہے کہ ہماری نئی نسل ان کے پیغام کو آگے لیجانے کیلئے پرعزم ہے۔ ڈاکٹر پریم کمار سمجھتے تھے کہ دنیا کے ہر مذہب کی تعلیمات ہمیں ایک اچھا انسان بننے کی تلقین کرتے ہوئے دنیاوی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کا درس دیتی ہیں،ان کا مانناتھا کہ ایک خدا پر ایمان ہمیں دنیاوی مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے، ہمارے اندر صدمہ سہنے کی قوت پیدا کرتا ہے، ہمیں اس عارضی دنیا کی اصل حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ ایک دن آخرکار ہم سب کو اس دارِ فانی سے چلے جانا ہے، ایک دن ہمارا سماجی رتبہ، مال و دولت، رشتہ دار اور کامیابیاں سب ہم سے بچھڑ جائیں گی، ازل سے یہی دستورِ زندگی ہے کہ قریبی لوگ کچھ دن جانے والے کا سوگ مناتے ہیں اور پھر وہ بھی معمولاتِ زندگی میں مگن ہوجاتے ہیں، اور جب خدا کی بارگاہ میں پیشی ہوتی ہے توانسان کے صرف اورصرف اپنے نیک اعمال ہی کام آتے ہیں، میرے بھائی کی وفات کے بعد جس مثبت انداز سے دوست، احباب نے انہیں اعلیٰ الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے، اس سے میرا تمیز اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے خدمت انسانیت کیلئے حوصلہ اور بلند ہوگیا ہے کہ جو انسان خدا کے بتائے ہوئے راستے پر نیک زندگی بسر کرتا ہے وہ نہ صرف زندگی میں سب کے دِل جیت لیتا ہے بلکہ اس کے دار ِ فانی سے چلے جانے کے بعد بھی لوگ اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، ہمیں سمجھناچاہئے کہ دنیا میں روزانہ کروڑوں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ایک اچھا انسان اپنی خدمات کی بدولت تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوا لیتا ہے۔ ہم نے اپنے پیارے آنجہانی بھائی کی آتما کو شانتی پہنچانے کیلئے حیدر آباد میں ان کی رہائش گاہ پر بارہ دن کے تعزیتی پروگرام کا انعقاد کیا ہے جس میں روزانہ صبح شری مد بھگوت گیتا پرچار اور شام کو آرتی ، ست سنگ اور رامائن کتھا کیا جارہا ہے۔ میں آج ڈاکٹر پریم کمارکا سوگ مناتے ہوئے یہی کہنا چاہوں گا کہ ہمیں زندگی کا ہر پل نیک اعمال میں بسر کرنا چاہئے، ہمیں کسی کا دِل نہیں دکھانا چاہئے، ہمیں اچھا کام کرنے میں کسی صورت دیر نہیں کرنی چاہئے، کون جانے بعد میں مہلت ملے نہ ملے۔ میں ان تمام خیرخواہوں کا دِلی مشکور ہوں جنہوں نے میرے بھائی کے انتقال پر تعزیتی پیغامات بھیجے اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ میں 22اپریل تک حیدرآباد کی سیٹیزن کالونی میں مقیم ہوں، جو احباب تعزیت کیلئے تشریف لانا چاہتے ہیں، ان سب کیلئے ہمارے دروازے ہمیشہ کھُلے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)